کتاب: محدث شمارہ 244 - صفحہ 22
کریں تو روزہ چھوڑ دیں ۔[1] ۲۵۔ مسافر روزہ چھوڑسکتا ہے مگر بعد میں قضا دے گا۔ (جماعۃ از عمرة ابن عمر والا سلمی مرفوعاً) نوٹ:سبل السلام میں کھانا کھلانے کی مقدار نصف صاع گندم مذکور ہے مگر شوکانی کا دعویٰ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مقدارکے بارہ میں کوئی حدیث ثابت نہیں ۔البتہ حضرت ابوہریرہ سے عطاء کی روایت میں ایک مد کا ذکر ہے او رمجاہد کی روایت میں نصف صاع گندم کا ذکر ہے۔ (فتح الباری) (۲) قیام اللیل کا لغوی اور شرعی معنی قیام اللیل کا لغوی معنی رات کے وقت کھڑاہونا ہے اور شرعی معنی نمازِ عشا کے بعد سے لیکر طلوعِ فجر کے دوران نفلی نماز کاادا کرنا ۔ قیام اللیل کو کتاب و سنت اورکتب ِفقہ میں ان ناموں سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے : ۱۔ تراویح: جو کہ رمضان میں نمازِ تہجد کا دوسرا نام ہے۔ ۲۔ تہجد: جو رمضان یا غیر رمضان میں بوقت ِشب سات تا گیارہ یا تیرہ رکعت تک پڑھی جاتی ہے۔ ۳۔ وِتر: نماز وِتر کا اطلاق کبھی قیام اللیل کے علاوہ اس نماز پربھی ہوتا ہے جو ایک یا تین یا پانچ رکعتوں کی صورت میں ادا کی جاتی ہے۔ قیام اللیل کی مشروعیت و فضیلت رمضان میں قیام اللیل یعنی رات کا قیام مستحب ہے چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے رمضان کے دن کے روزے فرض اور اس کی راتوں کا قیام نفل ٹھہرایا ہے“ (بیہقی شعب الایمان از سلمان فارسی رضی اللہ عنہ مرفوعاً) … اور اس کی فضیلت میں امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بھی فرمان ہے : ”جوشخص اللہ تعالیٰ پرایمان اور اس سے اجروثواب کی امید رکھتے ہوئے رمضان کی راتوں کا قیام کرے، اس کے سابقہ تمام گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں۔ (متفق علیہ از ابوہریرہ) باجماعت قیام کی مشروعیت رمضان کی راتوں میں قیام باجماعت سنت ہے اور فرداً فرداً قیام سے بدرجہا بہتر ہے کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیاتِ مبارکہ میں رمضان کی ۲۳ ویں ، ۲۵ویں اور ۲۷ ویں رات باجماعت قیام(۱۱) فرمایا اور اسے صرف اس لئے چھوڑا کہ کہیں فرض(۱۲) نہ ہوجائے۔اور جب بوجہ وفات نزولِ وحی کی بندش کی وجہ سے فرضیت کا خطرہ ٹل گیا تو پھر قیام باجماعت کا دوبارہ احیاء و اجراء(۱۳) عین منشا رسول تھا۔
[1] ائمہ کا حاملہ اور مرضعہ کے اِطعام وقضا کے بارے میں شدید اختلاف ہے کیونکہ احادیث میں اِطعام اورقضا کا ذکر نہیں اوزاعی، زہری اور امام شافعی (ایک قول میں ) صرف قضا کے قائل ہیں ( نیل الاوطار) مگر بعض صحیح روایات میں قضا کی بجائے اِطعام (فدیہ) کا حکم ہے۔ (بزار، دارقطنی از ابن عباس موقوفاً)