کتاب: محدث شمارہ 244 - صفحہ 21
۱۵۔ جمہور علما ءِ سلف و خلف اور ائمہ اربعہ کے نزدیک رمضان کے روزوں کی قضا، شعبان سے موٴخر نہیں ہوسکتی۔ (سنن ابوداود از عائشہ)… اگر شعبان کے گزرنے سے پہلے فوت ہوجائے اور اس کی قضا پر قادر تھا تو بالاتفاق اس کے ترکہ سے ہر دن ایک مد کھانا دیا جائے گا۔ ۱۶۔ اگر کوئی شخص رمضان کے روزے عذر کی وجہ سے چھوڑے، پھر عاجز ہوگیا اورکوئی روزہ نہ رکھ سکا اور مرگیا تو اس پر کوئی روزہ نہیں اور نہ قضا ہوگی اور نہ ہی کھانا کھلانا (عون المعبود) ۱۷۔ جو شخص رمضان کی قضا دینا چاہے تو علی الترتیب پے در پے روزے رکھنا مندوب ہے اور متفرق رکھنا بھی جمہور کے نزدیک جائز ہے۔[1] (فتح الباری) ۱۸۔ اگر کوئی شخص رمضان موٴخر کرے حتیٰ کہ دوسرا رمضان داخل ہوجائے اور اسے طاقت بھی ہو تو وہ دوسرے رمضان کے روزے رکھے اور پہلے رمضان کے بدلے کھانا کھلائے اور بعد میں روزے[2]رکھے یہی مذہب جمہور کا ہے۔(بخاری ، ابوہریرہ مرسلا / فتح الباری ابوہریرہ و ابن عباس موصولاً) ۱۹۔ اگر کسی شخص پر رمضان کے فرضی روزے ہوں اور وہ کوئی نفلی روزہ رکھنا چاہے تو بہتر یہ ہے کہ پہلے فرضی روزے رکھے۔ [3] ۲۰۔ حیض و نفاس والی عورت رمضان کے روزے چھوڑ دے اور بعد میں قضا دے (متفق علیہ از عائشہ رضی اللہ عنہا ) ۲۱۔ جو شخص مرگیا اور اسکے ذمہ روزہ تھا تو اسکا ولی اسکی طرف سے روزہ رکھے [4] (متفق علیہ از عائشہ رضی اللہ عنہا ) ۲۲۔ جمہور کے نزدیک بچہ پر بلوغت سے پہلے روزہ واجب نہیں بعض ائمہ سلف[5] نے مستحب قرار دیا ہے،ماں باپ یا دیگر اولیاء کو چاہئے کہ وہ بچوں کو روزہ رکھوائیں ۔(بخاری از الربیع بنت معوذ) ۲۳۔ بوڑھا مرد اور عورت یا دائم المرض روزہ افطار کریں اور ہر روز ایک مسکین کوکھانا دیں اور ان پرکوئی قضا نہیں ۔ (دارقطنی و حاکم از ابن عباس موقوفاً) ۲۴۔ حاملہ اور مرضعہ (بچے کو دودھ پلانے والی عورت) اگر خود اپنے یا بچہ کے بارے میں خطرہ محسوس
[1] دارقطنی از بن عمر مرفوعاً… بخاری از ابن عباس موقوفاً [2] البتہ ابراہیم نخعی رحمۃ اللہ علیہ او رامام ابوحنیفہ صرف قضا کے قائل ہیں اور ان کی دلیل ﴿فَعِدَّۃٌ مِنْ اَیَّامٍ اُخَر﴾ ہے، مگر احادیث میں قضا و اِطعام کا بھی ذکر ہے۔ [3] مسند عبدالرزاق میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ پہلے فرض رکھے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بھی یہی قول ہے۔ ابن ابی شیبہ میں سند صحیح سے مروی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اسے مستحب سمجھتے تھے۔(فتح الباری) [4] جمہور کے نزدیک روزہ رکھنا واجب نہیں بلکہ کفارہ ہے یعنی ہر روز ایک مسکین کاکھانا، البتہ اہل ظاہر کے نزدیک روزہ رکھنا ضروری ہے۔ [5] ابن سیرین، زہری ، شافعی