کتاب: محدث شمارہ 244 - صفحہ 17
کھاتا پیتا رہے مگر بعد ازاں پتہ چلاکہ گمان غلط تھا، اس میں بھی علماء کا اختلاف ہے مگر محققین[1] کا مذہب یہی ہے کہ روزہ صحیح ہے اور اس کی کوئی قضا نہیں۔ قسم دوم:جس کی وجہ سے روزہ کا بطلان اور قضا کے علاوہ کفارہ بھی لازم آئے، وہ صرف عمداً جماع ہے۔یادرہے کہ اگر کوئی شخص قضاءِ رمضان یا کفاروں کے روزوں میں عمداً جماع کرے یا رمضان ہی میں بصورتِ اِکراہ یانسیان جماع کرے تو اس پر کفارہ کوئی نہیں ۔ شرائط ِروزہ ۱۔غیبت نہ کرنا ۲۔جہالت اور حماقت نہ کرنا ۳۔جھوٹ اور بہتان نہ باندھنا ۴۔بے ہودہ بات نہ کرنا (متفق علیہ از ابوہریرہ) مباحاتِ روزہ ۱۔ نہانا یا سر پرپانی ڈالنا (صحیحین از عائشہ، احمد، مالک، ابوداود، نسائی) ۲۔ آنکھ میں سرمہ یا دوائی ڈالنا۔[2] (انس رضی اللہ عنہ موقوفاً بسند ِجید) ۳۔ بوسہ بشرطیکہ شہوت نہ بھڑکائے (اَحمد و مسلم از عائشہ) ۴۔ حجامت (سنگی لگانا یا لگوانا) بشرطیکہ آدمی طاقتور ہو (بخاری از انس ، نسائی ، ابن خزیمہ، دارقطنی) ۵۔ فصد: جسم کے کسی حصہ سے خون نکلوانا ، اس کاحکم بھی حجامت کاسا ہے۔ (از سعید خدری بسند صحیح) ۶۔ حقنة : وہ دوائی جسے بیمار کے مقعد سے فضلہ نکالنے کے لئے چڑھایا جائے۔ ۷۔ مضمضہ اور استنشاق یعنی کلی کرنا اور ناک میں پانی چڑھانا بشرطیکہ دونوں میں مبالغہ نہ کرے۔[3] (ابوداود، ترمذی، از لقیط بن صبرہ مرفوعاًبسند صحیح) ۸۔ مکھی، مچھر و دیگر حشرات الارض اور ذرّات کا حلق سے اُترنا۔ ۹۔ خوشبو سونگھنا
[1] مثلاً ابن حزم، داود، حسن بصری او رابن تیمیہ وغیرہ۔ [2] نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سرمہ ڈالنے کی بابت کوئی مرفوع حدیث مروی نہیں البتہ ابوداود نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کا فعل ذکر کیا ہے اورحافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی سند کو درست قرار دیا ہے۔ [3] یاد رہے کہ روزہ دار کے لئے کلی اور ناک میں پانی ڈالنے میں مبالغہ کرنامکروہ ہے اور اگر غلطی سے پانی پیٹ میں چلا جائے تو امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اور شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے ایک قول کے مطابق روزہ ٹوٹ جاتا ہے، مگر امام احمد رحمۃ اللہ علیہ اور اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ کے نزدیک نہیں ٹوٹتا اور یہی راجح ہے۔