کتاب: محدث شمارہ 244 - صفحہ 16
چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے:إنما الأعمال بالنيات اَعمال کا دارومدار نیت یعنی دل کے اِرادوں پر ہے۔ (بخاری و مسلم از عمر بن خطاب) نیت کے مسائل نیت کا تعلق دل سے ہے، اس لئے زبان سے بولنا شرط نہیں بلکہ علما نے اسے بدعت قرار دیا ہے لہٰذا ہمارے ہاں جو بالفاظ نویت بصوم غد کہہ کر نیت کی جاتی ہے ، یہ خلافِ سنت ہے۔ ۱۔ فرض روزہ کی نیت رات کو ضروری ہے (ابن خزیمہ ،ابن حبان از حفصہ رضی اللہ عنہا مرفوعاً بسند صحیح) ۲۔ فرض روزہ کی نیت غروبِ آفتاب سے لے کر طلوعِ فجر تک رات کے کسی حصہ میں کی جاسکتی ہے۔ ۳۔ رات کو نیت اسی شخص پر ضروری ہے جو اس پر بوقت ِشب قادر ہو لہٰذا اگر کوئی بچہ ماہِ رمضان کے دن بالغ ہوجائے یا دیوانہ صحت یاب ہوجائے یا کافر اسلام لے آئے یا دن کوپتہ چلے کہ آج رمضان کا روزہ ہے تو ان صورتوں میں دن کو ہی نیت کافی ہوگی۔ ۴۔ نفلی روزہ کی نیت اگر رات کو نہ ہوسکے تو دن میں کسی حصہ میں بھی کفایت کرے گی بشرطیکہ نیت سے پہلے کوئی ایسا کام نہ کیا ہو جس سے روزہ ٹوٹ جائے۔ (مسلم و ابوداود از عائشہ مرفوعاً) مفطّراتِ صوم (روزہ توڑنے والی چیزیں ) مفطرات دو قسم کی ہیں : (۱) جن سے روزہ کا بطلان اور قضا لازم ہو۔ (۲) جن سے روزہ کا بطلان اور قضا کے علاوہ کفارہ بھی لازم آئے۔ قسم اوَل کی انواع درج ذیل ہیں : ۱۔ عمداً کھانا پینا… (متفق علیہ) ۲۔ عمدا ً قے کرنا (احمد، ابوداود، ترمذی، وغیرہم از ابوہریرہ بسند صحیح) ۳۔ حیض و نفاس اگرچہ غروب ِآفتاب سے ایک لحظہ پہلے آئے۔ ۴۔ استمنا، یعنی مادہ منویہ کاعمداً نکالنا۔ ۵۔ ٹیکہ جو غذائیت کے کام آئے۔ ۶۔ سعوط، یعنی ناک میں دوائی وغیرہ ڈالنا۔ ٭ حجامت یعنی سنگی لگانے یا لگوانے کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے مگر راجح بات یہی ہے کہ کمزور آدمی حجامت سے پرہیز کرے۔[1] ٭ اگر کوئی شخص یہ گمان کرکے کہ سورج غروب ہوگیا ہے، روزہ چھوڑ دے یا ابھی فجر طلوع نہیں ہوئی،
[1] یہی امام مالک رحمۃ اللہ علیہ ، شوکانی رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ کی رائے ہے۔