کتاب: محدث شمارہ 244 - صفحہ 14
اَحکام ومسائل مولانا حفیظ الرحمن لکھوی مدیر جامعہ ابن تیمیہ، لاہور رمضانُ المبارک کے اَحکام ومسائل صیام، قیام اللیل، احکام وتر، لیلۃ القدر، اعتکاف، صدقۃ الفطر صوم کا لغوی اور شرعی معنی:صَوْم جسے اُردو زبان میں روزہ سے تعبیر کرتے ہیں ، کالغوی معنی رک جانا ہے اور اس کا شرعی معنی طلوعِ فجر سے لے کر غروبِ آفتاب تک تمام مُفطرات (روزہ توڑنے والی چیزوں ) سے بحالت ِایمان اجر و ثواب کی نیت سے رُک جاناہے۔ روزہ کامقام:اسلام کی عمارت جن پانچ ستونوں پر استوار کی گئی ہے، ان میں ایک روزہ ہے جومرتبہ کے اعتبار سے چوتھے درجہ پرہے جیسا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اسلام کی بنا ان پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے: (۱) کلمہ توحید کا اقرار (۲) نماز کی پابندی(۳) زکوٰة کی ادائیگی (۴) رمضان کا روزہ (۵) بیت اللہ کا حج“ (صحیح مسلم) فضائل روزہ (۱) تمام اعمالِ صالحہ میں صرف روزہ ایسا مبارک عمل ہے جس کی جزا قیامت کے روز اللہ تعالیٰ بنفس نفیس عطا فرمائیں گے (احمد،مسلم، نسائی از ابوہریرہ مرفوعاً) (۲) روزہ دار کے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کے نزدیک کستوری کی خوشبو سے بھی زیادہ پسندیدہ ہے۔ (۳) روزہ دار کو دو وجہ سے دوفرحتیں حاصل ہوتی ہے: ایک تو افطار کے وقت روزہ، چھوڑنے سے اور دوسرے ربّ سے ملاقات کے وقت جزاءِ روزہ کی وجہ سے (احمد ، مسلم، نسائی از ابوہریرہ رضی اللہ عنہ مرفوعاً) روزہ کی مشروعیت کا فلسفہ روزہ جن بہترین مقاصد کے تحت مشروع قرار دیا گیاہے، ان میں سے چند ایک یہ ہیں : (۱) گناہوں سے اجتناب (۲) شہواتِ نفسانی سے تحفظ (۳) آتش دوزخ سے نجات چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ”اے ایمان والو! تم پر روزہ اس طرح فرض کیا گیا ہے جس طرح کہ تم سے پہلے لوگوں پر تھا تاکہ تم (معصیت ِخداوندی،شہواتِ نفسانی اور جہنم کی آگ سے ) بچ جاؤ“ (البقرہ : ۱۸۳)