کتاب: محدث شمارہ 244 - صفحہ 13
نہیں رکھتا مگر اس کے بندوں کو بھی نقصان نہیں پہنچاتا۔ روزہ کا مقصود نفس کا انکسار اور دل کی شکستگی تھی۔ پھر اے شریر انسان! تو روٹی او رپانی کا روزہ رکھ کر خون اور گوشت کو کھانا کیوں پسند کرتا ہے: ﴿اَيُحِبُّ اَحَدُکُمْ اَنْ يَاْکُلَ لَحْمَ اَخِيْه مَيْتًا فَکرِهتُمُوْه﴾ ”آیا تم میں سے کوئی پسند کرے گا کہ وہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے“ من لم يدع قول الزور والعمل به فليس لله حاجة فی أن يدع طعامه وشرابه ”جس شخص نے مکروفریب نہ چھوڑا اور اتقائے صیام پر عمل نہ کیا سو اللہ کو کوئی حاجت نہیں کہ اس کے کھانے اورپینے کو چھڑا دے اور اسے بھوکا رکھے“(رواہ البخاری) اللہ فرماتا ہے کہ ﴿لَنْ يَنَالَ اللّٰهَ لُحُوْمُهَا وَلاَدِمَائُهَا وَلٰکِنْ يَّنَالُه التَّقْویٰ مِنْکُمْ﴾ ”اللہ تک تمہاری قربانیوں کا گوشت نہیں پہنچتا اور نہ ان کا خون، لیکن تمہارا تقویٰ اور تمہاری نیت پہنچتی ہے“ اگر قربانی کا گو شت اللہ تک نہیں پہنچتا، تو اے مغرورِ عبادت اور مردم آزار صائم! تیری بھوک اور پیاس بھی اللہ تک نہیں پہنچتی، بلکہ وہ چیز پہنچتی ہے جو تیرے دل اور تیری نیت میں ہے۔ اگر تجھے وہ نعمت حاصل نہیں تو تجھے معلوم ہو کہ تیری ساری ریاضت اِکارت اور تیری ساری مشقت بیکار ہے۔ پس وہ لوگ جنہوں نے روزہ نہ رکھا اور اللہ کا حکم توڑا، اور وہ جنہوں نے رکھا، پر اس کی حقیقت حاصل نہ کی، ان دونوں کی مثال ان دو لڑکوں کی سی ہے جن میں سے ایک تو مدرسہ جانے کی جگہ گھر میں پڑا رہتا ہے، اور دوسرا مدرسہ میں تو حاضر ہوتا ہے لیکن پڑھنے کی جگہ دن بھر کھیلتا ہے۔ پہلا لڑکا مدرسہ نہ گیا اور علم سے محروم رہا۔ دوسرا گیا اور پھر بھی محروم رہا۔ البتہ جانے والے کو نہ جانے والے پر ایک درجہ فضیلت حاصل ہے، لیکن اگر وہ مدرسے جاکر لوگوں کو تکلیف پہنچاتا ہے تو بہتر تھا کہ وہ نہ جاتا۔ پھر خدارا غور کرو کہ ہمارا ماتم کیساشدید اور ہماری بربادی کیسی المناک ہے؟ کس طرح حقیقت ناپید اور صحیح عمل مفقود ہوگیا ہے۔ اس سے بڑھ کر شریعت کی غربت اور احکامِ الٰہیہ کی بے کسی کیاہوگی کہ مسلمانوں نے یا تو اسے چھوڑ دیا ہے یا لباس لے لیا ہے،اصل صورت چھوڑ دی ہے ! آہ، یہ کیسی رُلا دینے والی بدبختی اور دیوانہ بنا دینے والا ماتم ہے کہ یا تو تم اس کے حکموں پر عمل نہیں کرتے یا کرتے ہو تو اس طرح کرتے ہو گویا اللہ سے ٹھٹھا اور تمسخر کرتے ہو۔ ”فوا أسفا، واحسرتا وامصيبتا“ جب حالت یہاں تک پہنچ چکی ہے تو تنزل کا شکوہ کیوں اور تباہی ٴملت کی شکایت کیا ؟ فهل من مدکر؟؟ [تحریر: مولانا ابو الکلام آزاد… ہفت روزہ ’الہلال‘ کلکتہ ۱۲/ اگست ۱۹۱۴ء بمطابق ۱۹ /رمضان ۱۳۳۲ھ ]