کتاب: محدث شمارہ 244 - صفحہ 12
روزہ روزہ نہیں ہے بلکہ محض بھوک کا عذاب اورپیاس کا دکھ ہے۔ کیا نہیں دیکھتے کہ احادیث ِنبویہ میں روزہ کی برکتوں کے لئے ’احتساب‘ کی بھی شرط قرار دی گئی۔
من صام رمضان إيمانا واحتسابا غفرله ما تقدم من ذنبه(رواہ البخاری)
”جس شخص نے رمضان کے روزے احتساب ِنفس کے ساتھ رکھے سو اللہ اس کے تمام پچھلے گناہ معاف کردے گا“
پھر کتنے ہیں جو روزہ رکھتے ہیں اور ساتھ ہی ایک سچے صائم کی پاک اور ستھری زندگی بھی انہیں نصیب ہے۔ آہ، میں ان لوگوں کو جانتا ہوں جو ایک طرف تو نمازیں پڑھتے اور روزے رکھتے ہیں ۔ دوسری طرف لوگوں کا مال کھاتے، بندوں کے حقوق غصب کرتے، ان کو دکھ اور تکلیف پہنچاتے، طرح طرح کے مکروفریب کو کام میں لاتے، اور جبکہ ان کے جسم کا پیٹ بھوکا ہوتا ہے تواپنے دل کے شکم کو گناہوں کی کثافت سے آسودہ اور سیر رکھتے ہیں ۔ کیا یہی وہ روزہ دار نہیں جن کی نسبت فرمایا کہ :
کم من صائم ليس له من صومه إلا الجوع والعطش (رواہ النسائی و ابن ماجہ)
”کتنے ہی روزہ دار ہیں جنہیں ان کے روزے سے سوا بھوک اور پیاس کے کچھ نہیں ملتا“
وہ راتوں کو تراویح میں قرآن سنتے ہیں اور صبح کو اس کی منزلیں ختم کرتے ہیں ، لیکن اس کی نہ تو ہدایتیں ان کے سامعہ سے آگے جاتی ہیں اور نہ اس کی صدائیں حلق سے نیچے اترتی ہیں :
وربّ قائم ليس له من قيامه إلا السهر (رواہ ابن ماجہ)
”اور کتنے راتوں کو ذکر و تلاوت کا قیام کرنے والے ہیں کہ انہیں اس سے سوائے شب بیداری کے اور کچھ فائدہ نہیں “
نیز فرمایا کہ ربّ تال للقرآن والقرآن یلعنہ بہت سے قرآن تلاوت کرنے والے ایسے ہیں کہ قرآن ان پر لعنت بھیجتا ہے، کیونکہ انہوں نے اپنی بدکرداریوں اور بے عملیوں سے قرآن کی تلاوت وسماعت کو لہوولعب بنا رکھا ہے۔
پھر کتنے ہی روزہ دار ہیں جن کا روزہ برکت و رحمت ہونے کی جگہ بندگانِ الٰہی کے لئے ایک آفت و مصیبت ہے، اور بہتر تھا کہ وہ روزہ نہ رکھتے۔ دن بھر بھوکا رہ کر اور رات کو تراویح پڑھ کر وہ ایسے مغرور و بدنفس ہوجاتے ہیں گویا انہوں نے اللہ پر، اس کے تمام ملائکہ پر، اور اس کے تمام بندوں پر ایک احسانِ عظیم کردیا ہے۔ اور اس کے معاوضہ میں انہیں کبریائی اور خود پرستی کی دائمی سند مل گئی ہے۔ اب اگر وہ انسانوں کو قتل بھی کرڈالیں ، جب بھی ان سے کوئی پرسش نہیں ۔ وہ تمام دن درندوں اور بھیڑیوں کی طرح لوگوں کو چیرتے پھاڑتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم روزہ دار ہیں ۔ سو ایسے لوگوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ زمین اور آسمان کا خداوند ان کے فاقہ کرنے کا محتاج نہیں ہے۔ اور ان کے اس روزہ رکھنے سے اس عاجز و درماندہ اور اپنی خطاؤں کا اعتراف کرنے والے گناہگار کا روزہ نہ رکھنا ہزار درجہ افضل ہے جو گو اللہ کا روزہ