کتاب: محدث شمارہ 244 - صفحہ 11
یہ نقاب کو چہرۂ محبوب سمجھے ہیں ، حالانکہ عیش نظارہ اس نے پایا، جس نے نقاب کی جگہ صورت سے عشق کیا۔ کاشت کار پھل کے لئے بیج بوتا ہے اور پھولوں کی ساری محبوبیت اس میں ہے کہ اس کی خوشبو سے دماغ معطر ہوجاتا ہے۔ پس اگر بیج پھل نہ لایا اور پھولوں نے خوشبو نہ دی تو کاشتکار کے لئے ہل جوتنے کی جگہ بہتر تھا کہ وہ گھر میں آرام سے سوتا، اور بے خوشبو کے پھولوں سے وہ خشک ٹہنی زیادہ قیمتی ہے جو چولہے میں جلائی جاسکے ﴿فَوَيلٌ لِّلْمُصَلِّينَ الَّذِينَ هُمْ عَنْ صَلاَتِهمْ سَاهوْنَ﴾ (۱۰۷:۶) نماز ہو یا روزہ، شریعت کے جتنے اَحکام اور جتنی طاعات ہیں ، سب کا حال یہ ہے کہ ایک شے تو ان میں مقصو د بالذات ہوتی ہے اور ایک اس مقصود کے حاصل کرنے کا وسیلہ…! نماز میں اصلی شے عبودیت ِالٰہی، انکسار و تذلل، خضو ع و خشوع، ابتہال و توجہ الی اللہ وانقطاع و تبتّل ہے، اور نتیجہ اس کا تمام فواحش و منکرات اور رذائل و خبائث سے اجتناب و تحفظ ہے۔ حج کا مقصود دعوتِ اسلامی کی نشا ٴة اولیٰ کی یادگار، اسوۂ ابراہیم کی تجدید، مرکز ِتوحید پر تمام شعوب و قبائل موحدین کا اجتماع، اور وحدتِ اسلامی و اتحادِ ممالک و اُمم کا ظہور و قیام ہے اور نتیجہ اس کا تعلق الٰہی کی تقویت، احکامِ شریعت کا انقیاد اور رفع انشقاق و ا ختلاف، و انسدادِ تفریق و تشتت کلمہ اسلام ہے۔ اسی طرح روزہ بھی صرف بھوک پیاس کا نام نہ تھا۔ اگر ایسا ہوتا تو ہر فقیر عابد ہوتا اور ہر فاقہ کش موٴمن کامل، حالانکہ بہت سے بے نصیب مسکین ہیں جن کی فاقہ کشی انہیں وہ شے نہیں دے سکتی جو ایک اللہ پرست بادشاہ ، لذائذ و نعائم کے خوان ہائے پرتکلف کے سامنے بیٹھ کر پالیتا ہے۔ اصل شے روح کا تقویٰ، نفس کی طہارت، خواہشو ں کا حبس، قوتوں کا احتساب اور جذبات کا ایثار ہے، اور چونکہ مخلوقات کے لئے غذا کی خواہش سب سے بڑی مجبو رکن خواہش ہے، اس لئے درسِ صبر، تعلیم تحمل، تولید فضائل اور نفوذِ اتقاء و ایثارِ نفس کے لئے اسی خواہش کے ترک کرنے کا حکم دیا گیا اور اس کو تمام روحانی فضائل کے کسب اور تمام اَ خلاقی رذائل سے اجتناب کا وسیلہ قرار دیا۔ یہی وجہ ہے کہ روزہ کا حکم دینے کے بعد اس کی علت ایک نہایت ہی جامع و مانع اصطلاح شریعت میں واضح کردی گئی کہ : ﴿لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ﴾ یہ اس لئے ہے تاکہ تم تقویٰ حاصل کرو! ’تقویٰ ‘بچنے اور پرہیز کرنے کو کہتے ہیں ۔ قرآنِ حکیم کی اصطلاح میں اس سے مقصود تمام برائیوں اور رذالتوں سے بچنا اور پرہیز کرنا ہے۔ پس روزہ وہ ہے جو ہمیں پرہیزگاری کا سبق دے، روزہ وہ ہے جو ہمارے اندر تقویٰ اور طہارت پیدا کرے۔ روزہ وہ ہے جو ہمیں صبر اور تحمل شدائد و تکالیف کا عادی بنائے۔ روزہ وہ ہے جو ہماری تمام بہیمی قوتوں اور غضبی خواہشوں کے اندر اعتدال پیدا کرے، روزہ وہ ہے جس سے ہمارے اندر نیکیوں کا جوش، صداقتوں کا عشق، راست بازی کی شیفتگی، اور برائیوں سے اجتناب کی قوت پیدا ہو۔ یہی چیز روزہ کا اصل مقصود ہے اورباقی سب کچھ بمنزلہ رسائل و ذرائع کے ہے۔ اگر یہ فضیلتیں ہمارے اندر پیدا نہ ہوئیں تو پھر