کتاب: محدث شمارہ 244 - صفحہ 104
کرنے کی تربیت دی جاتی ہے۔ا س کا دورانیہ تعلیم چار سال ہے۔ ۳۔ کلیۃ القرآن الکریم والعلوم الاسلامیہ: ۱۹۹۱ء میں اس کلیہ کا اِجرا ہوا۔ جس میں وفاق المدارس السلفیہ کے شرعی اور عربی نصابِ تعلیم میں کچھ ترامیم کرکے مدینہ یونیورسٹی کے نصاب تعلیم کی روشنی میں تجوید اور قراء ت سبعہ وعشرہ کا اضافہ کیا گیاتا کہ اس کلیہ کا فارغ التحصیل ماہر قاری ہونے کے ساتھ ساتھ مستند عالم دین بھی ہو۔ پورے پاکستان میں دینی علوم کے ساتھ تجوید و قراء ت کی اس قدر اعلی تعلیم کا حامل یہ واحد ادارہ ہے۔ ۴۔ کلیۃ العلوم الاجتماعیہ: دورِ حاضر کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لئے شرعی علوم کے ساتھ ساتھ عصری علوم سے آراستہ افراد تیار کرنے کے لئے یہ کلیہ ۱۹۸۹ء میں قائم کیا گیا جس میں طلباء کو مروّجہ دنیاوی علوم کی مڈل سے بی اے تک شام کے اوقات میں باضابطہ اور معیاری تعلیم دی جاتی ہے۔ علاوہ ازیں اسی کلیہ کے تحت عربی واسلامی کمپیوٹر کی وسیع ٹریننگکے انتظامات بھی موجود ہیں اور جامعہ کے تمام طلبہ کو لازمی بنیادوں پر کمپیوٹر کی تعلیم وتربیت مفت دی جاتی ہے جس میں اسلامی افکار اور لٹریچر کے لئے انٹرنیٹ اور کمپیوٹر سے خصوصی استفادہ کی تربیت بھی شامل ہے۔ ۵۔ المدرسۃالرحمانیہ اس کے دو مستقل شعبے ہیں : (الف) جو کلیۃالشریعہ اور کلیۃ القرآن سے ملحق ثانوی درجہ کی تعلیم کے لئے مختص ہے۔ ثانوی (ہائر سیکنڈری) درجہ کے اس مدرسہ کی سند کا سعودی عرب کی تمام یونیورسٹیوں سے معادلہ Equalation موجودہے۔مدرسہ سے چار سال کی تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کو ان یونیورسٹیوں میں براہِ راست تمام متعلقہ ڈگری کورسز میں داخلہ (سکالر شپ) دیا جاتاہے۔ (ب) مدرسۃ الازہر اور مدرسۃ الزہراء جس میں طلباء اور طالبات کو قرآنِ کریم تجوید کے ساتھ حفظ کرایا جاتا ہے۔ اس شعبہ کی ۱۰ سے زائد کلاسیں ہیں جس میں ماہر اساتذہ فن کی تحقیق وجستجو سے بہترین نتائج حاصل کئے جارہے ہیں ۔ اس کے بعد انہوں نے فرمایا کہ میں جامعہ کو درپیش مشکلات کا ذکر ضروری سمجھتا ہوں جن میں نمایاں ترین یہ ہے کہ ان تمام اداروں کے لئے مناسب حال وسیع عمارتیں موجودنہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں مختلف شعبوں کے مطابق ماہر اساتذہ کی قلت کا سامنا ہے جس کی وجہ سے طلباء کی شدید خواہش کے باوجود جامعہ ان کو داخلہ دینے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ آخر میں انہوں نے معزز مہمانوں اور حاضرین مجلس کا دوبارہ شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے اپنی تشریف آوری سے ہماری تقریب کو رونق بخشی۔ اس کے بعد خادم الحرمین الشریفین کی حکومت کے وزیر عدل ڈاکٹرعبداللہ بن محمد بن ابراہیم آلِ الشیخ