کتاب: محدث شمارہ 244 - صفحہ 10
وجود الحاد و زندقہ کے سوا اور کچھ نہیں : ﴿يُخَادِعُوْنَ اللّٰهَ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَمَا يَخْدَعُوْنَ اِلَّا اَنْفُسَهمْ وَمَا يَشْعُروْنَ﴾ (۲:۱۰) ”یہ وہ لوگ ہیں کہ اللہ کو اور مسلمانوں کو اپنے نفاق سے دھوکا دینا چاہتے ہیں ، مگر نہیں جانتے کہ درحقیقت وہ اپنے نفس ہی کو دھوکا دے رہے ہیں “ ایک بشارتِ عظمیٰ البتہ دو تین سال سے تعلیم یافتہ طبقہ میں ایک مبارک تغیر و انقلاب کے آثار ضرور نظر آرہے ہیں ، اور میں بہت سے ایسے اربابِ انابت و رجوع الی اللہ کو جانتا ہوں جن کے دلوں پر پچھلے مصائب ِاسلامی سے تنبہ و اعتبار کی ایک کاری چوٹ لگی ہے اور ان کے اندر مذہبی اعمال کی طرف یکایک میلان و رجوع پیدا ہوچلا ہے۔ سو فی الحقیقت ایسے مبارک نفوس اس گروہ کی عام حالت سے بالکل مستثنیٰ ہیں ، اور اگر ان کو استقامت و ثبات نصیب ہو تو کچھ شک نہیں کہ ہم سب کو چاہئے کہ انکے ہاتھوں کو جوشِ عقیدت سے بوسہ دیں اور مقدس عباؤں کے دامنوں کی جگہ ان کے فرنگی کوٹوں کے دامنوں کو آنکھوں سے لگائیں ۔ کیونکہ موجودہ عہد میں اسلام و ملت کی خدمت کے لیے اس گروہ سے بڑھ کر اور کوئی جماعت مفید تر نہیں ہوسکتی اور اس کی اصلاح سے بڑھ کر عالمی اسلامی کیلئے کوئی بشارت نہیں لعلّ اللّٰه يحدث بعد ذلک أمرا۔ عاملین اَحکام و صائمین رمضان یہ حال تو تارکین صیام کا تھا۔ اب انہیں دیکھیں جو عاملین و صائمین میں دا خل ہیں ۔ یہ سرگزشت ان کی تھی جنہوں نے شریعت کو چھوڑ دیا، لیکن آؤ اب ان کی سراغ میں نکلیں جو اب تک دامن شریعت سے وابستہ ہیں ۔ یہ وہ لوگ تھے جو پانی سے دور ہوگئے۔ اب آؤ ان کو دیکھیں جو دریا کے کنارے خیمہ زن ہیں …پھر کیا وہ سیراب ہیں ؟کیا وہ پہلوں کی طرح پیاسے نہیں !! افسوس کہ حقیقت کی آنکھیں اب تک خونبار ہیں اور عشق مقصود کا قدم یہاں تک پہنچ کر بھی کامیاب نہیں ۔ یہ سچ ہے کہ پہلوں نے دریا کی راہ چھوڑ دی اور دوسرے نے اس کے کنارے اپنا خیمہ لگایا اور اس میں بھی کچھ شک نہیں کہ اس کا اجر انہیں ملنا چاہئے، لیکن اگر دریا کا قرب دریا کے لئے نہیں بلکہ دریا کے پانی کے لئے تھا تو پہلا گروہ پانی سے دور رہ کر پیاسا رہا، اور دوسرے اس تک پہنچ کر پیاسے ہیں ! انہیں کشتی نہیں ملتی، انہیں ساحل نہیں ملتا…!! یہ وہ لوگ ہیں کہ انہوں نے شریعت کے حکموں کو تو لے لیا ہے، مگر اس کی حقیقت چھوڑ دی ہے۔ یہ وہ ہیں کہ انہوں نے چھلکے پر قناعت کی اور اس کے مغز کو ان لوگوں کی طرح چھوڑ دیا جنہوں نے چھلکا اور مغز دونوں چھوڑ دیا ہے۔ یہ جسم کو انسان سمجھتے ہیں حالانکہ جسم بغیر روح کے ایک سڑجانے والی لاش ہے۔