کتاب: محدث شمارہ 243 - صفحہ 9
کتاب وحکمت شیخ الاسلام امام ابنِ تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ
درجات اليقين
﴿إِنَّ هَٰذَا لَهُوَ حَقُّ الْيَقِينِ﴾
سوال۔شیخ الاسلام ابو العباس امام احمد بن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے جو(قرآن شریف میں مختلف جگہوں پر) حَقُّ الْيَقِينِ ، عَيْنَ الْيَقِينِ ،اور عِلْمَ الْيَقِينِ کے تین مقام بیان فرمائے ہیں ان میں سے ہر مقام کےکیا معنی ہیں ؟ اور کون سا مقام ان سب میں اعلیٰ ہے؟
جواب۔حضرت امام موصوف رحمۃ اللہ علیہ نے یوں جواب دیا:الحمد للہ رب العالمین، حَقُّ الْيَقِينِ، عَيْنَ الْيَقِينِ ، عِلْمَ الْيَقِينِ کی تفسیر میں لوگوں نے مختلف باتیں کہیں ہیں،ان میں ایک قول یہ ہے کہ:
عِلْمَ الْيَقِينِ علم کے اس درجہ کا نام ہے جو کسی شخص کو کسی بات کے سننے،کسی دوسرے شخص کے بتلانے اور کسی بات میں غور اور قیاس کرنے سے حاصل ہو،پھر جب وہ اس چیز کا آنکھوں سے مشاہدہ اور معائنہ کرے گا تو اسے عَيْنَ الْيَقِينِ حاصل ہوجائے گا۔اور جب دیکھنے کے بعد اسے چھوئے گا،اسے محسوس کرے گا،اسے چکھے گا اور اس کی حقیقت کو پہچان لے گا تو اسے حَقُّ الْيَقِينِ حاصل ہوجائے گا۔
پہلے درجہ علم کی مثال یہ ہے کہ ایک شخص کو کسی نے خبردی کہ فلاں جگہ شہد ہے تو اس نے خالی اس کی تصدیق،یا مکھیوں کاچھتا اور اسی قسم کے اور نشان کو دیکھا تو نتیجہ نکال لیا کہ وہاں شہد ہوگا۔دوسرا درجہ یہ ہے کہ شہد والے چھتے کو دیکھ لےاور اس قسم کا مشاہدہ اور معائنہ کرلے۔یہ مقام پہلے سے اعلیٰ ہے جیسا کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ليس المخبر كالمعاين یعنی" جو شخص صرف کان سے سن لے ،وہ اس کے برابر نہیں ہوسکتا جو آنکھ سے بھی دیکھ لے"۔تیسرے درجہ کی مثال یہ ہے کہ ایک شخص نے شہد کو چکھ لیا اور اس کے مزہ وار شیرینی کو محسوس کیا۔یہ بات تو سب کو معلوم ہے کہ یہ د رجہ اپنے سے پہلے درجہ یعنی عَيْنَ الْيَقِينِ سے بڑھ کر ہے۔اسی لیے اہل معرفت جب حَقُّ الْيَقِينِ کا لفظ بولتے ہیں تو اس شوق اور وجد کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو انہیں حاصل ہوتا ہے۔چنانچہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث صحیح میں فرمایا:
"عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ ثَلَاثٌ مَنْ كُنَّ فِيهِ ، وَجَدَ حَلَاوَةَ الْإِيمَانِ ؛ أَنْ يَكُونَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ ، أَحَبَّ إِلَيْهِ مِمَّا سِوَاهُمَا ، وَأَنْ يُحِبَّ الْمَرْءَ لَا يُحِبُّهُ إِلَّا لِلَّهِ ، وَأَنْ يَكْرَهَ أَنْ يَعُودَ فِي الْكُفْرِ كَمَا يَكْرَهُ أَنْ يُقْذَفَ فِي النَّارِ ."(متفق علیه)