کتاب: محدث شمارہ 243 - صفحہ 6
میں حکمران بن سکیں گے جن کی تعلیم و تربیت انگلستان کے رائل تعلیمی اداروں میں ہوئی ہوگی۔یہ بات برطانوی وزیر اعظم چر چل نے اپنی سوانح عمری میں لکھی ہے۔ اس وقت چرچل انگلینڈکا وزیر داخلہ تھا۔ بظاہر یہ ایک معمولی سی شرط لگتی ہے مگر گہرائی میں جاکردیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ انگریز عالم اسلام میں اپنے جانشینوں کے بارے میں کتنی طویل منصوبہ بندی کر چکے تھے آج عالمی اسلامی قیادت کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ وہ شعوری یا لاشعوری طور پر انگریزوں کی سازش کو یونہی عملی جامہ پہنانےرہیں گے یا پھر ملت اسلامیہ کے اتحاد پر غور و فکر کرتے ہوئے کوئی مناسب لائحہ عمل تیار کریں گے۔ 5۔گلو بلائز یشن (گلوبیت)ایک نیا فریب اور دم ہے جس میں دیگر ترقی پذیر ممالک کے ساتھ عالم اسلام کوکسا جارہا ہے اہل مغرب عالمی بستی کا نعرہ لگا رہے ہیں امت مسلمہ کے فریب خوردہ دانشو بھی اس عالمی بستی کے گن گارہے ہیں ۔مگر انہیں یہ ضرور سوچنا چاہئے کہ اس عالمی بستی میں امریکہ اور یورپی ممالک اپنے آپ کو ظالم جاگیر دار کے مرتبہ پر فائز سمجھتے ہیں وہ مادی ترقی کے بعد سیاسی و تہذیبی رعونت میں مبتلا ہیں ان کے خیال میں عالمی بستی کے دیگر مکینوں کایہ فرض ہے کہ وہ ان کی ثقافت اور اقدار کو اپنائیں ۔ اس عالمی بستی میں غیر یورپی اقوام کے تہذیب و تمدن یا انفرادی سطح پر ثقافتی تشخص کی کوئی اہمیت نہیں ہے ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کےذریعے عالمی تجارت کے وہی اصول وضع کئے جارہے ہیں جو یورپی ممالک کے مفاد میں ہیں ۔ان اصولوں کو تسلیم کرلینے کے بعد اسلامی ممالک کی رہی سہی برآمدات کابھی بیڑہ غرق ہوجائے گا۔ ابھی تک جو شرائط سامنے آئی ہیں اس کی روسے امریکہ و یورپ تو اپنا ساز و سامان بغیر کسی رکاوٹ کے ترقی پذیر ممالک میں بھجوا سکیں گے مگر ترقی پذیر ممالک کی مصنوعات کو 9000ISOکےمعیارات پر جانچےبغیر یورپ و امریکہ انہیں قبول نہیں کریں گے،گو یا گلوبلیت ایک فریب ہے جس کے پردے میں مغرب نے ترقی پذیر ممالک کے استحصال کی نئی شکلیں دریافت کر لی ہیں ۔ یورپ و امریکہ کے اس دام فریب سے بچ نکلنا بھی ایک چیلنج ہے جس کا سامنا عالم اسلام کو کرنا ہے۔ 6۔1999ء میں ایک کتاب منظر عام پر آئی تھی جس کا عنوان ہے۔”The debt trap”یعنی قرض کا پھندا ۔پاکستان جیسے غریب مسلمان ممالک اس قرض کے پھندے میں بری طرح جکڑے ہوئے ہیں ۔آئی ایف اور عالمی بنک کے قرضوں پر اٹھنے والی سود کی رقم پاکستان کے بجٹ کا تقریباً 3/1حصہ ہے ۔قرضوں کے عظیم بوجھ تلے دبے رہنے کی وجہ سے مسلمان ممالک میں ترقیاتی فنڈز نہ ہونے کے برابر بچتے ہیں ۔ اس کے ساتھ ہی عالمی سودی بینکاری نظام کی جکڑ بندیوں سے آزاد ہوکر غیر سودی بینکاری نظام کا قیام ایک بہت بڑا چیلنج ہے جب تک مسلمان ممالک اس استحصالی سودی نظام سے نجات نہیں پائیں گے ان کے اندر معاشی استحکام پیدا نہیں ہو سکتا ۔اس وقت سعودی عرب ،ملائیشیا مراکش وغیرہ میں بھی کئی یورپی بینکوں نے عرب سرمایہ داروں کو اپنی طرف مبذول کرنے کے لیے غیر سودی بینکاری کو متعارف کرایا ہے۔ مذکورہ مالیاتی اداروں میں مروج غیر سودی بینکاری کی شرعی حیثیت کے بارے میں تو معروضات پیش کی جاسکتی ہیں البتہ اس سے یہ