کتاب: محدث شمارہ 243 - صفحہ 5
جب تک قائم رہی پورے عالم اسلام کی نگاہیں اس پر جمی رہیں ۔عالمی استعمار کی سازشوں سے جب 1924ءمیں خلافت کا خاتمہ کیا گیا تو ساتھ ہی ملت اسلامیہ کا شیرازہ بھی منتشر ہوگیا اہل مغرب ترکی کو یورپ کا مرد بیمار تو کہتے تھے مگر یہ ان آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتا بھی تھا لارنس آف عریبیہ کے ذریعے انگریزوں نے خطہ عرب میں نیشنلزم کا ایسا فسوں پھونکا کہ لسانی وعلاقائی تعصبات پیدا ہوئے ۔شریف حسین آف مکہ جیسے نادان مسلمان ترکوں سے آزادی حاصل کرنے کے لیے پنجہ یہود کی گرفت میں آگے ادھر اتارترک جیسے ملحد اسلام دشمن ،مغرب زدہ جرنیل نے خلافت عثمانیہ پر الحاد کا ایسا کلہاڑا چلایا کہ خلافت کا خاتمہ کر کے رکھ دیا جس سے مسلمانوں کی مرکزیت ریزہ ریزہ ہو گئی آج صورت یہ ہے کہ مسلمان ملکوں میں زیادہ تر وہ لوگ اقتدار پر قابض ہیں جن کی رگوں میں اسلام کی بجائے اتاترک ازم کا خون جوش مار رہاہے ترکی کی ملحد فوجی جنتا کا تو ذکر کیا کیجئے صدام حسین بشیر الاسد ،یمن کے حکمران ،مصر کے حسنی مبارک اُردن کے شاہ عبد اللہ مراکش کے شاہ محمد خامس لیبیا کے قذافی ،انڈونیشیا و ملا یشیا کے حکمران وغیرہ سیکولر نظریات کے حامل ہیں پاکستان میں بھی صدر ضیاء الحق کے علاوہ کسی حکمران نے بھی اسلام سے وابستگی کا کا کھلم کھلا اظہار کبھی نہ کیا۔آزادی حاصل کرنے کے بعد مسلمان ممالک پر سیکولراور اشترا کی حکمرانوں کا قبضہ ہو گیا ۔ان حکمرانوں کی اکثریت اپنے اقتدار کو دوام دینے میں زیادہ دلچسپی رکھتی ہے بلکہ یہ اتحاد اُمہ کے تصور سے ہی بیزار ہیں ۔ ان میں سے بعض نے اپنا قبلہ ماسکوکو بنائے رکھا تو کچھ واشنگٹن کو پنا قبلہ سمجھتے ہیں بعض لندن اور پیرس میں جبین نیاز جھکانے میں فخر محسوس کرتے ہیں ۔ایسے عالم میں اتحاد ملت اسلامیہ کا پرچم کون اٹھائے ۔۔۔؟؟
اہل مغرب جمہوریت کے بہت راگ الاپتے ہیں مگر جن ممالک میں اسلام پسند انتخاب کے ذریعہ اقتدار میں آسکتے ہوں وہاں ان کی جمہوریت پسندی قائم نہیں رہتی ۔الجزائر میں مغربی ممالک نے اسلامک فرنٹ کو انتخابات میں واضح کامیابی کے باوجود اقتدار پر قابض نہیں ہونے دیا۔ عالم اسلام میں جب بھی کوئی راہنما اسلام کی بات کرتا ہے مغربی ابلاغ اسے بنیاد پرست قراردے کر اس کی مذمت کی مہم برپاکردیتے ہیں اس وقت صورتحال یہ ہے کہ اتحاد امت کا مسلمان حکمرانوں میں اس قدر احساس بھی نہیں ہے جو آج سے تیس سال پہلے تھا آج پوری اسلامی دنیا میں ایک بھی شاہ فیصل جیسا راہنما نہیں ہے جو سنجیدگی سے امت میں اتحاد پیدا کرنے کی کاوش کرے ۔
مغربی استعمار نے شروع سے ہی منصوبہ بندی کی کہ امت مسلمہ میں اتحاد نہ ہونے پائے۔ یہاں ایک چشم کشا واقعہ کا ذکر ضروری معلوم ہوتا ہے جنگ عظیم اول میں جب ترکوں شکست ہوئی تو فرانس میں ورسلیز کے مقام پر ترکی کے حصے بخرےکرنے کے لیے یورپی قائدین جمع ہوئے۔اس اجلاس میں تشریف حسین آف مکہ کا بیٹا فیصل بھی شریک ہوا جو بعد میں اعراق کا بادشاہ بنا ۔شریف حسین آف مکہ کو یہ پریشانی تھی کہ انہوں نے ترکوں کے خلاف انگریزوں کا ساتھ دیا تھا مگر وہ انہیں اقتدار دینے میں ہچکچارہے تھے بحرحال جب کافی بحث و تمحیص کے بعد شریف حسین آف مکہ حجار و عراق میں حکومت منتقل کرنے کے معاہدے پر دستخط کئے جانے لگے تو اس معاہدہ کی ایک شق یہ بھی تھی کہ شریف حسین آف مکہ کی اولاد میں سے صرف وہ شہزادے عراق اُردن وغیرہ