کتاب: محدث شمارہ 243 - صفحہ 4
“ They are poor,because they are poor.”
یعنی "چونکہ وہ غریب ہیں اسی لیے وہ غریب ہیں "
اس مکتبہ فکر کے دانشوروں کا خیال ہے کہ غربت ایک منحوس چکرہے اس میں ایک دفعہ کوئی پھنس جا ئے تو پھر خود بخود اس سے نکلنا محال ہوتا ہے اسی فلسفہ کی بنیاد پر یہ دانشور ترقی پذیر ممالک کے لیے غیر ملکی امدادکو ضروری قرار دیتے ہیں ان کے خیال میں ترقی پذیر ممالک میں پائی جانے والی جہالت کی بنیادی وجہ بھی وہاں غربت کا پا یا جا نا ہے مگر ان کے برعکس دانشوروں کا ایک گروہ یہ خیال رکھتا ہے کہ علمی پسماندگی (جہالت)معاشی پسماندگی کا باعث بنتی ہے۔مؤخر الذکر کردہ کے خیالات حقیقت سے زیادہ قریب ہیں ۔یورپ نے گذشتہ تین سوسالوں میں جو ترقی کی ہے اس کی وجہ علمی ترقی ہے سائنس اور ٹیکنالوجی نے انہیں دولت و خوشحال بنادیا ہے۔
ایک سروے کے مطابق 54مسلمان کی سالانہ خام قومی پیداوار(GDP )کا تخمینہ 2400/ارب ڈالر ہے اس میں ملائشیا انڈونیشیا کے علاوہ تیل پیدا کرنے والے مسلمان ممالک بھی شامل ہیں ۔مگر یورپ کے صرف ایک ملک فرانس کی سالانہ خام قومی پیداوار 2800/1رب ڈالر کے لگ بھگ ہے جاپان کی(GDP ) کا اندازہ 5400/ارب ڈالر ہے اس سروے میں امریکہ کے متعلق اعداد و شمار نہیں تھے لیکن اندازہ ہے کہ اس کی خام قومی پیداوار 9000/ارب ڈالر کے برابر ہے(روزنامہ ڈان ) پاکستان کا سالانہ بجٹ 640/ارب روپےہے۔اس سروے سے پاکستان ایک بھی طیارہ بردارسمندری جہاز (بحری بیڑہ) نہیں خرید سکتا ،جو امریکہ کے پاس سینکڑوں کی تعداد میں ہیں ایک ایف 16لڑاکا جہاز کی قیمت 50کروڑ روپے سے زیادہ ہے پاکستان جیسے زرعی ملک کپاس کی لاکھوں گانٹھیں بیچ کر بھی ایک ایف 16بڑی مشکل سے خرید کر سکتے ہیں صنعتی اشیا اور زرعی اشیا میں اس عظیم فرق کی وجہ سے ترقی یافتہ ممالک ترقی پذیر ممالک کو بنی بنائی اشیا فروخت تو کرنا چاہتے ہیں مگر انہیں ٹیکنا لوجی منتقل کرنے کو تیار نہیں ہیں ٹیکنا لوجی کی یہ برتری ہی دراصل مغربی ممالک کی پورے عالم کی قیادت کرنے کا اصل راز ہے مسلمان ممالک میں سائنسی تحقیق کا معیار بے حد پست ہے تیل پیدا کرنے والے مسلمان ممالک تیل کی کھربوں ڈالر کی آمدنی کو مغربی ممالک سے اشیا درآمدکرنے میں صرف کردیتے ہیں ۔دولت کی ریل پیل نے انہیں تحقیق سے بے خبر دے پروا کر رکھا ہے انہوں نے سائنسی تحقیق کے لیے تجربہ گاہوں کا نیٹ ورک قائم کرنے میں کسی قسم کی دلچسپی کا ظہار نہیں کیا۔ اگر خدانخواستہ کچھ عرصہ کے بعد ان ممالک سے تیل نکلنا بند ہو جا ئے تو ان کے لیے موجودہ ترقی کی سطح کو برقرار رکھنا بھی مشکل ہو گا۔ عرب ممالک جس قدر سرمایہ یورپی ممالک سے اشیا کی درآمد پر خرچ کرتےہیں اس کا عشر عشیر بھی تحقیق پر خرچ کریں یا اس کا ایک معمولی حصہ بھی غریب مسلمان مملکوں کی مالی امداد کے طور پر مختص کر دیں تو نہ صرف عالم اسلام سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں یورپ سے آنکھ ملا سکتا ہے بلکہ عالم اسلام کے بعض خطہ جات میں بد ترین غربت اور معاشی مسائل میں بھی قدرے کمی لائی جاسکتی ہے ٹیکنالوجی کے میدان میں خود کفالت بھی ایک زبردست چیلنج ہے جو امت مسلمہ کو درپیش ہے۔
4۔اتحاد ملت اسلامیہ ایک دیرینہ خواب ہے جو عرصہ درازسے شرمندہ تعبیر نہیں ہوا۔ خلافت عثمانیہ