کتاب: محدث شمارہ 243 - صفحہ 30
وسائل اور طریقہ کار مختلف ہے۔مسلم ممالک کاطریقہ کھردرا ہے جبکہ مغربی ممالک کاطریقہ زیادہPolished(تراشیدہ) ہے۔مغربی ممالک میں سنسر شپ کو مالی وسائل،پریشر گروپس ،ایڈیٹرز،پبلشرز کی معرفت کنٹرول کیاجاتا ہے۔ 6۔امریکہ میں سنسر آئین اور قانون کی بجائے غیر حکومتی سطح پر کیا جاتا ہے۔یہودیوں کے بارے میں ریمارکس ،ٹی وی،ریڈیو وغیرہ کے پروگراموں میں مصنفین کی اجازت کے بغیر خارج کردیئے جاتے ہیں ۔کارل برنسٹن،باور ڈالیٹ،ایرکاجونگ اور پیٹرماس جیسے معتبر مصنفین اس طرح کے سنسر شپ کےخلاف آواز بلند کرچکے ہیں ۔ 7۔امریکہ کی مشہور ویسٹ ویوپریس نے جناب علی مزدوری کی کتاب Cultural Forces in World Politics کے وہ تین باب چھاپنے سے انکار کردیا جن میں انہوں نے شیطانی آیات،(رشدی کی کتاب) کو ثقافتی بغاوت،فلسطینی انتفادہ کوٹیا نمن سکوائر میں 1989ء کی طالب علموں کی بغاوت اورجنوبی افریقہ کی نسل پرست پالیسی A partheidکوZoinism سے تشبیہ دی تھی۔ 8۔اب بھی مغربی میں کسی ایسے آدمی کے لیے جو مارکزم کو پسند کرتا ہو یااسرائیل کو تنقید کانشانہ بناتا ہو،ملازمت(تعلیمی اداروں اور میڈیا وغیرہ میں ) حاصل کرنامشکل ہے۔ 9۔ٹی وی اور اخبارات پر بھی ایک خاص طرح کے پروگرام پیش کیے جاتے ہیں ۔جبکہ مسلمانوں کو نقطہ نظر پیش نہیں کیا جاتا۔ اقلیتوں سے سلوک: مغربی ممالک اپنی سیکولر فکر کو ترقی کاراز سمجھتے ہیں اور مسلم ممالک کی مذہبیت کو مسائل کی جڑ سمجھتے ہیں ۔مگر دیکھنا یہ ہے کہ مذہب اور ریاست کی تقسیم میں مغرب اور مسلم ممالک میں کتنا فرق ہے؟ 1۔مغرب نے سیکولرازم کے ذریعے اقلیتی مذاہب کا دفاع کرنے کی کوشش کی ہے۔مگر اس کے خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوئے۔جرمنی کاHolocaust اس کی بدترین مثال ہے۔اب بھی مشرقی جرمنی میں یہودیت کے خلاف اور فرانس میں اسلام کے خلاف شدید جذبات پائے جاتے ہیں ۔ 2۔امریکہ میں 200 سال سے مذہب اور ریاست کی تقسیم ہے۔لیکن پوری تاریخ میں صرف ایک غیر پروٹسٹنٹ (کینیڈی) صدر بن سکا ہے۔ 3۔یہودی امریکہ میں بہت زیادہ اثر ورسوخ رکھتے ہیں لیکن صدارت کے لیے انہوں نے بھی کبھی کوشش نہیں کی۔