کتاب: محدث شمارہ 243 - صفحہ 27
منٹ پہلے پڑھ لی جائے۔درمیان میں وقفہ دے کر اذان کہیں ۔اس سے بھی بہتر یہ ہے کہ اذان کے بعد دعا پڑھ کردرود شریف پڑھیں ۔جب لوگ سوئے ہوئے ہوں ،یاکسی کام میں مشغول ہوں ،نماز باجماعت سے پہلے قرآن کریم یا درود شریف یا کوئی وظیفہ یا صوفیا کرام کاکلام بلندآواز سے پڑھنا سنت کے خلاف اور اہل اسلام کو پریشان کرنے،ان کو بلاوجہ تنگ کرنے کے گناہ کا ا رتکاب ہے،بالخصوص فجر سے پہلے لاؤڈ اسپیکر پر صوفیا کرام کا کلام پڑھنا غیر مستحسن اور دوسروں کو تکلیف دینے کے مترادف ہے۔فجر کے وقت سوائے دو سنت کے ،نوافل پڑھنے کا بھی حکم نہیں ہے۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نمازیوں کی دشواری کے پیش نظر بعض اوقات نماز اورقرات میں تخفیف کردیا کرتے تھے۔امام وخطیب کو ایسا رویہ اختیار کرنا چاہیے جس سے اہل محلہ تنگ نہ ہوں جب کہ اس کا عمل سنت بھی نہ ہو،مستحب بھی نہ ہو۔واللّٰه اعلم بالصواب (مفتی محمد حسین نعیمی ،ناظم جامعہ نعیمیہ ،لاہور) 3۔دارالعلوم حزب الاحناف کا فتویٰ: فجر ہونے سے پہلے لاؤڈ اسپیکر پر بلند آوازسے درودشریف پڑھنا جائز نہیں ۔کیونکہ کاروباری آدمی سوئے ہوتے ہیں ،ان کے آرام میں خلل واقع ہوتاہے۔در المختار میں ہے: فى حاشية الحموى عن الامام شعرانى۔۔۔الخ "حموی میں ہے،امام شعرانی نے فرمایا کہ"مسجدوں میں یا مسجدوں کے علاوہ جماعت کا ذکر کرنا مستحب ہے،اس میں سلف اور خلف کا اجماع ہے۔اگر ان کابلند ذکر سونے والے پر اور نماز پڑھنے یاقرآن پڑھنے والے پر مشوش ہوتو جائز نہیں " اور اعلیٰ حضرت نے فتاویٰ رضویہ جلد سوم میں بھی قریب قریب ایسا ہی فرمایا ہے لیکن انہوں نے مریض کا بھی ذکر فرمایا ہے کہ بلند آواز سے ذکر کرنے میں اگر مریض کے آرام میں خلل آتا ہے تو ذکر جہر ممنوع ہے۔لہذا جب فجر طلوع ہوجائے تب لاؤڈ اسپیکر پر در ود شریف بلند آواز سے پڑھ سکتے ہیں ۔لیکن فجر سے پہلے نہ پڑھیں ۔(مورخہ 22 اکتوبر 1978ء) ہم اہل سنت والجماعت کو نئی بات رائج کرنا اس لیے بھی زیب نہیں دیتا کہ ہم امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے مقلد ہیں ۔فقہ حنفی میں اذان سے قبل صلوۃ وغیرہ ثابت نہیں ہے۔تو اب یہ غیر مقلد انہ عمل کرنا دراصل ثابت کرتا ہے کہ امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ اور صحابہ کرام( رضوان اللہ عنہم اجمعین ) عشق کی اس منزل سے آشنا نہ تھے جس سے آج کاجاہل عاشق سرشار ہے۔(نعوذباللہ) (برایں عقل ودانش بباید گریست) [1]
[1] حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے فتح الباری میں لکھا ہے ،فجر کی نماز سے پہلے اور جمعہ کی نماز سے پہلے اذان(یا متصل بعد یا جماعت سے پہلے) اور اذان سے پہلے صلوۃ وسلام پڑھنا لغت وشرع کسی اعتبار سے بھی اذان کا حصہ نہیں ۔۔۔اور ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے فتاویٰ کبریٰ میں لکھاہےاذان کے بعد جو بلند آواز سے صلواۃ وسلام پڑھا جاتا ہے۔یہ کیفیت بھی بدعت ہے ۔اور مفتی مصر شیخ محمد عبدہ نے بھی ان(صلوۃ وسلام) کو اذان کا حصہ بناکر پڑھنے کو بدعت قرار دیا ہے جو کہ محض تلحین(راگ گانے والوں ) کے شوق کی پیداوار ہے۔(فقہ السنۃ:1/122)