کتاب: محدث شمارہ 243 - صفحہ 25
میں سے آستانہ عالیہ ،علی پور کے پیر جماعت علی شاہ،مفتی محمد حسین نعیمی،مرکز اہل السنت والجماعت د ارالعلوم حزب الاحناف ،لاہور اور اس مکتب فکر کے بانی مبانی مولانا احمد رضا خان بریلوی کے فتاویٰ درج ہی جس کا خلاصہ مذکورہ عنوان میں ہی آگیا ہے۔ اس پمفلٹ کی عبارت درج ذیل ہے جس کو بلاتبصرہ کے شائع کیا جارہا ہے: ماہنامہ انوار الصوفیہ شہر۔۔۔۔۔ترجمان آستان عالیہ علی پور شریف موسس اعلیٰ حضرت پیر ملت مجدد العصر قبلہ عالم[1] 1۔پیر جماعت علی شاہ 2۔اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خاں بریلوی 3۔امام اہل السنت مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد حسین نعیمی،جامعہ نعیمیہ لاہور 4۔مرکز اہل السنت والجماعت ،دارالعلوم حزب الاحناف ،داتا گنج بخش[2] روڈ کے فتاویٰ سوال:آج کل ہم اہل سنت والجماعت تمام مساجد میں بآواز بلند اذان سے پہلے صلوۃ وسلام پڑھتے ہیں اور بعض موذنین صلوۃ وسلام سے بھی پہلے اعوذ اور بسم اللہ اور آیت: ﴿ إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ﴾یا کوئی اور آیت پڑھتے ہیں اور پھر صلواۃ وسلام اور پھر اذان پڑھتے ہیں ۔۔۔کیا یہ جائز ہے؟ جواب۔اذان سے قبل اعوذ پڑھنا مشروع نہیں ہے۔اس کا حکم قرآن شریف کے ساتھ مخصوص ہے یعنی جب قرآن شریف پڑھنا چاہو تو اعوذ پڑھ لو،اس کے سوا کسی چیز سے پہلے اعوذ پڑھنے کا حکم نہیں ۔بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ہر نیک کام کے اول پڑھنا باعث برکت ہے۔لیکن اونچی آواز سے اور مزید برآں لاؤڈ سپیکر میں پڑھنا فضول ہے۔آہستہ سے پڑھنا کافی ہے قرون اولیٰ میں بلکہ پاکستان کے معرض وجود میں آنے سے پہلے کہیں بھی اذان کو اونچی آواز سے بسم اللہ پڑھ کر شروع کرنا مہور(معروف) نہیں ہے۔ایسے ہی اونچی آواز سے بالالتزام اذان سے قبل صلوۃ وسلام پڑھنا اور اس کو عادت بنانا مشروع نہیں ہے۔در اصل یہ زوائد وہابیوں ،دیوبندیوں کی ضد سے یانعت خواں قسم کے موذنین نے پیدا
[1] ان دونوں لفظوں کااستعمال درست نہیں ہے۔کیونکہ قبلہ عالم صرف ایک ہی ہے وہ ہے بیت اللہ شریف مکہ مکرمہ،لہذا عموماً جو لوگ لکھ دیتے ہیں قبلہ والد صاحب قبلہ استاد صاحب،قبلہ پیر،قبلہ مولانا ،انہیں اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔اور گنج بخش صرف اللہ کی صفت ہی ہوسکتی ہے ،کسی دوسرے کو اس سے منصف قرار دینا ناجائز ہے۔ [2] جائز بھی نہیں کیونکہ یہاں جس حدیث کی طرف اشارہ کیاگیا ہے:مَا رَآهُ الْمُسْلِمُونَ حَسَنًا فَهُوَ عِنْدَ اللَّهِ حَسَنٌ کہ جسے مسلمان اچھا سمجھیں وہ اچھا ہے۔یہاں مسلمانوں سے مراد صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین ہیں نہ کہ ہرکس وناکس۔اگر اسے ہر کس وناکس کے لیے عام مان لیا جائے تو پھر تمام بدعات حتیٰ کہ شرکیہ اُمور بھی جائز قرار پائیں گے جو کہ بلا شبہ غلط ہے۔