کتاب: محدث شمارہ 243 - صفحہ 2
کتاب: محدث شمارہ 243
مصنف: حافظ عبد الرحمن مدنی
پبلیشر: مجلس التحقیق الاسلامی لاہور
ترجمہ:
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
فکر و نظر
اکیسویں صدی میں امتِ مسلمہ کو درپیش چیلنچ
اکیسویں صدی کے آغاز میں امت مسلمہ مختلف النوع مسائل کاشکار ہے۔مسلمان دانشوروں پر یہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ صرف ان مسائل کا معروضی اور حقیقت پسندانہ جائزہ لیں بلکہ نشاۃ ثانیہ کی جدو جہد میں امت مسلمہ کودرپیش چیلنجزکا سامناکرنےکے لیے مؤثر عقلی فکری اور عملی قیادت کا اہم فریضہ بھی انجام دیں ۔ملت اسلامیہ کو اس وقت جن چیلنجزکاسامنا ہے ان میں سے نمایاں ترین کا خلاصہ درج ذیل ہے۔
1۔دوسری جنگ عظیم کے بعد بیشترمسلمان ملکوں کو یورپ کی سیاسی استعماریت سے توآزادی ملی مگراس سیاسی غلامی سے نجات پانے کے باوجود ابھی تک مغرب کی فکری محکوی کا طوق اتارپھینکنےمیں کامیاب نہیں ہوئے ،اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یورپی استعمارنے جانے جاتے ایک بات کو یقینی بنایا کہ آزاد کردہ مسلمان ملکوں میں اقتداراس طبقہ کے حوالے کر گئےجو مغربی تہذیب کے پروردہ اور ستارتھے انہوں نے ان ملکوں میں قرآن و سنت کے نفاذ کی بجائے نو آبادیاتی قوانین کو جاری رکھا ۔وہ جس نظام تعلیم کی خود پیداوار تھے اسی کو انہوں نے جو ں کا توں برقراررکھتے ہوئے مسلمانوں کی نئی نسل کی ذہن کوسازی مغربی سانچوں کے مطابق کی، ان مسلم ممالک کا برسر اقتدار طبقہ اگر چہ نسلی طور پر تو مسلمان ہی تھا مگر ان کی فکر سیکولر(لادینی )تھی۔
وہ اسلامی نظام کو ایک ایسا دقیانوسی نظام سمجھتے ہیں جو عصر حاضر کے تقاضوں کو پورا نہیں کر سکتا ۔لہٰذاانہوں نے بھرپور کوشش کی کہ مسلمان اسلام سے دور رہیں یورپ کی بھونڈی نقالی کو یہ طبقہ ماڈرن ازم (جدیدیت پسندی ) کا نام دیتا ہے چونکہ یہ طبقہ مقامی تہذیب و تمدن کے بارے میں احساس کمتری کا شکار ہے اسی لیےمغربی تہذیب کی اندھی تقلید ہی ان کے نزدیک ترقی پسندی اور روشن خیالی کی دلیل ہے مغربی دانشوورں نے بھی مغرب کی ثقافتی استعماریت (کلچرل امپریلزم)کومسلط کرنے کے لیے مسلمان ممالک میں برسر اقتدارطبقہ کو اپنے مؤثر ہتھیار بلکہ ایجنٹ کے طور پر استعمال کیا۔مسلمان حکمرانوں کے تہذیب مغرب سے اس والہانہ شغف نے نئی نسلوں کا رابطہ مسلمانوں کے شاندار ماضی نے منقطع کردیا جس کے نتیجے میں مغرب کی بھونڈی نقالی کو ہی انہوں نے اپنا مقصود بنا لیا آج صورتحال یہ ہے کہ مسلمان ملکوں کے بڑے بڑے شہر اسلامی ثقافت کی بجائے مغربی ثقافت کا نمونہ پیش کرتے ہیں مسلمان ممالک کے تعلیمی اداروں کا موحول وہاں کے طلبہ کی تراش خراش اور بودو باش دیکھ کر یہی احساس ہو تا ہے کہ یہ کسی یورپی تعلیمی ادارے کے طلباءہیں ۔مغرب کی ثقافتی استعماریت اور عقلی نو آباد یت سے چھٹکارا حاصل کرنا ایک بہت بڑا چیلنج ہے جو مسلم امہ کو درپیش ہے۔
2۔عصر حاضر میں مادیت اور روحانیت کے درمیان توازن برقرار رکھنا ایک عظیم چیلنج ہے جس کا جرات مندانہ مقابلہ ضروری ہے مسلمان ممالک میں ایک منصوبہ بندی کے ساتھ یہ سوچ پھیلائی جارہی ہے کہ اگر