کتاب: محدث شمارہ 243 - صفحہ 19
﴿ فَذَرْهُمْ حَتَّىٰ يُلَاقُوا يَوْمَهُمُ الَّذِي فِيهِ يُصْعَقُونَ ﴿٤٥﴾ يَوْمَ لَا يُغْنِي عَنْهُمْ كَيْدُهُمْ شَيْئًا وَلَا هُمْ يُنصَرُونَ ﴿٤٦﴾ وَإِنَّ لِلَّذِينَ ظَلَمُوا عَذَابًا دُونَ ذَٰلِكَ وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ ﴾ "انہیں چھوڑ دو یہاں تک کہ وہ اپنے اس دن سے دو چار ہوں جس میں وہ بے ہوش کردیئے جائیں گے۔جس دن ان کا داؤ کچھ کام نہ دے سکے گا اور نہ ان کی مدد کی جائے گی اور یقیناً ظالموں کےلیے اس کے علاوہ بھی عذاب ہے اور لیکن ان میں سے اکثر لوگ نہیں جانتے" غور فرمائیے کہ ظالمین مکہ کے لیے قیامت کے دن کے علاوہ جو عذاب ہے ،اس سے کون سا عذاب مراد ہوسکتا ہے۔جبکہ تاریخی شہادتوں سے یہ بات معلوم ہے کہ ان میں سے بہت سے افراد اس دنیا سے عذاب پائے بغیر ہی گزر گئے تھے۔لہذا اس کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں کہ اسے عذاب برزخ تسلیم کیاجائے۔ پانچویں دلیل: تقریباً اسی سے ملتے بات سورہ توبہ میں منافقوں کے متعلق کہی گئی ہے ،ارشاد ہے: ﴿ سَنُعَذِّبُهُم مَّرَّ‌تَيْنِ ثُمَّ يُرَ‌دُّونَ إِلَىٰ عَذَابٍ عَظِيمٍ﴾(التوبة:101) "ہم انہیں عنقریب دو مرتبہ عذاب دیں گے ،پھر انہیں زبردست عذاب کی طرف پلٹا یا جائے گا" زبردست عذاب سے مراد حتمی طور پر قیامت کے بعد کا عذاب ہے۔اب اس سے پہلے دو مرتبہ کا عذاب تو اس میں سے ایک تو اس دنیائے فانی کی ذلت ورسوائی ہےجس سے منافقین کو دوچار ہونا پڑااور دوسرے مرنے کے بعد کا عذاب قبر ہے۔کیونکہ بہت سے منافقین کو اس دنیا میں انہیں ایک ہی عذاب دیا گیا دو نہیں ۔اس کے برعکس بعض منافقین کو بار بار ذلت ورسوائی سے دوچار ہونا پڑا۔اب اگر ہر مرتبہ کی ذلت کو ایک بار کا عذاب کہیں تو انہیں دنیا میں دو مرتبہ کے بجائے کئی مرتبہ عذاب ہوگیا۔اس لیے ان کے حق میں دو مرتبہ عذاب دینے کی بات بے معنی ہوجاتی ہے۔البتہ دنیا کی ساری رسوائیوں کو ایک عذاب اور قبر کی سختیوں اور گرفتوں کی دوسرا عذاب قرار دیں تو یہ عین تاریخی شہادت اور واقعات کے مطابق ہے۔ قرآن مجید کی ان آیات اور بیانات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس حقیقت اور عقیدے کے ثبوت میں کوئی کسر نہیں رہ جاتی کہ اللہ اپنے نیکو کار اور صالح بندوں کو موت کے بعد اور قیامت سے پہلے یعنی عالم برزخ اور قبر میں اپنی نعمتوں سے نوازتاہے اور بد عمل اور گمراہ لوگوں کو عالم برزخ اور قبر میں سزا اور عذاب دیتا ہے۔یعنی عذاب قبر اور ثواب قبر کا عقیدہ بالکل صحیح اور برحق ہے ۔اور اس کا انکار صاف طور پر قرآن کا انکار ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں اور سارے مسلمانوں کو حق قبول کرنے کی توفیق دے۔اور اپنے عذاب اور گرفت سے محفوظ رکھ کر ا پنی نعمتوں سے نوازے۔ اللّٰهم ارنا الحق حقا وارزقنا اتباعه وارنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابه