کتاب: محدث شمارہ 243 - صفحہ 18
یہ ہے کہ ان کے مرجانے کے بعد اورقیامت قائم ہونے سے پہلے انکے بارے میں جو ذکر کیاگیاہے کہ ان کو صبح وشام آگ پر پیش کیا جاتا ہے۔ اگر یہ عذا ب برزق نہیں ہے تو کون سا عذاب ہے؟؟
یہاں ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ فرعون اور اس کی قوم کو یہ عذاب کیوں دیا جارہا ہے؟جواب صاف ہے کہ ان کا قصور قرآن میں جگہ جگہ یہ بتایاگیاہے کہ انہوں نے سرکشی کی،یعنی اللہ اور اس کے نبیوں پر ایمان نہیں لائے۔ان کی اطاعت وپیروی نہیں کی۔شرک وبت پرستی اور نافرمانی وتکبر کی راہ پر چلے رہے ۔اب سوال یہ ہے کہ ان برائیوں اور ان جرائم کی وجہ سے جب فرعون اور اس کی قوم کو عالم برزخ میں عذاب ہورہا ہے تو جو لوگ اور جو قومیں ہی تصور کرکے دنیا سے جائیں گے،انہیں عالم بر زخ میں عذاب کیوں نہیں ہوگا؟کیا اللہ بے انصاف ہے کہ قوم فرعون نے ایک جرم کیا تو انہیں عذاب دے رہا ہے لیکن وہی جرم دوسری قومیں کریں گی تو انہیں عذاب نہیں دے گا؟
تیسری دلیل:۔
عام کفار کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:۔
﴿وَلَوْ تَرَىٰ إِذِ الظَّالِمُونَ فِي غَمَرَاتِ الْمَوْتِ وَالْمَلَائِكَةُ بَاسِطُو أَيْدِيهِمْ أَخْرِجُوا أَنفُسَكُمُ ۖ الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُونِ بِمَا كُنتُمْ تَقُولُونَ عَلَى اللَّـهِ غَيْرَ الْحَقِّ وَكُنتُمْ عَنْ آيَاتِهِ تَسْتَكْبِرُونَ﴾(الانعام :93)
"اور اگر آپ دیکھ لیں جبکہ ظالمین موت کی سختیوں میں ہوں اور فرشتے اپنے ہاتھ بڑھائے ہوئے ہوں کہ تم اپنے نفسوں کو نکالو۔ آج تمہیں اس سبب سے ذلت کا عذاب دیاجائے گا کہ تم اللہ پر ناحق بولتے تھے اور اس کی آیتوں سے استکبار کرتے تھے"
دیکھئے! کتنی صراحت اورصفائی کے ساتھ کہا گیا ہے کہ کفار کو ان کی عین وفات کے وقت یہ خبر سنائی جاتی ہے کہ آج تمہیں عذاب دیاجائے گا۔ظاہر ہے کہ یہ عذاب قیامت کےدن کاعذاب نہیں ہے،کیونکہ جس دن کسی کافر کی موت واقع ہورہی ہے وہ قیامت کے دن نہیں ۔ورآنحالے کہ عذاب اسی دن آپڑنے کی خبر دی جارہی ہے اور یہ عذاب دنیا کاعذاب بھی نہیں ہے۔کیونکہ جس وقت ان کی روح کھینچی جارہی ہے عین اس وقت انہیں یہ بتایا جارہا ہے کہ آج تمہیں عذاب یا جائے گا یعنی جس عذاب کے دیئے جانے کی خبردی جارہی ہے۔ابھی وہ شروع نہیں ہواہے درآنحالے کہ روح نکالی جارہی ہے۔پس یہ عذاب مرنے کے بعد اور قیامت سے پہلے کا عذاب ہوا۔لہذا قطعاً عذاب برزخ ہوا۔
چوتھی دلیل:
سورہ طہٰ میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اہل مکہ کی چہ میگوئیوں اور نکتہ چینیوں کا جواب دینے کے بعد فرمایا ہے: