کتاب: محدث شمارہ 243 - صفحہ 17
بارے میں خوش ہیں (اور اس پر خوش ہیں کہ) اللہ ایمان والوں کا اجر ضائع نہیں کرتا"
ان آیات سے واضح اور دو ٹوک طور پرثابت ہوتا ہے کہ شہدائے کرام کو اللہ کی راہ میں قتل کئے جانے کے بعد پھرزندگی عطا کردی جاتی ہے اور یہ زندگی ہماری دنیاوی زندگی کی طرح نہیں ہوتی،بلکہ ایسی ہوتی ہے جسے ہم سمجھ نہیں سکتے۔لیکن بہرحال مرحلہ شہادت سے گزارنے کے بعد ان کے لیے زندگی ملنا اس قدر پختہ طور پر یقینی ہےکہ انہیں مردہ کہنے سے روک دیاگیا ہے۔
ان آیات پر ایک بار پھر نظر ڈالیے اور دیکھئے کہ ان آیات سے شہیدوں کے لیے صرف زندگی ہی عطا کیاجانا ثابت نہیں ہوتا بلکہ اللہ تعالیٰ کی نعمت ہائے گوناگوں سے بہرہ ور اور سرفراز کیا جانا بھی ثابت ہوتا ہے۔پھر یہ نعمتیں جو دنیاسے تشریف لے جاتے ہیں انہیں ملتی ہیں ۔صرف انہی کے لیے مخصوص نہیں ہے بلکہ اس طرح کی نعمتوں کی خوش خبری وہ ا پنے ان مومن بھائیوں کے حق میں بھی جانتے ہیں جوابھی دنیا سے گزرے نہیں ہیں اور ان شہیدوں کو یہ بھی بتلایا گیا ہے کہ ان نعمتوں کا سبب ایمان ہے۔کیونکہ آیت کے آخر میں ﴿ أَنَّ اللَّـهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُؤْمِنِينَ ﴾ کہا گیاہے۔(اجر الشهداء) یا (اجر المقتولين في سبيل اللّٰه) نہیں کہاگیا ہے ۔
حاصل یہ ہے کہ ان آیات سے برزخ۔۔۔اور بلفظ دیگر قبر میں اہل ایمان کو ثواب ملنے کا پورا پورا ثبوت فراہم ہورہاہے۔
دوسری دلیل:
قرآن مجید میں جگہ جگہ بتایا گیا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کو خدا کی بندگی کی دعوت دی،فرعون نہ مانا ،بہت سے نشانات دیکھا دیئے گئے۔تب بھی نہ مانا،آخر موسیٰ علیہ السلام بنو اسرائیل کوساتھ لے کرنکل پڑے۔فرعون نے اپنے لاؤ لشکر سمیت ان کا پیچھا کیا۔اللہ نے بنی اسرائیل کے لیے دریا میں راستہ بنادیا۔وہ پار ہونے لگے تو فرعون بھی اپنے لشکر سمیت اسی راستے پر چل پڑا اور اسرائیل پار نکل گئے اور فرعون اپنے لشکر سمیت ڈبو دیا گیا۔اسی و اقعہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سورہ مومن میں فرمایا گیا:
﴿ فَوَقَاهُ اللَّـهُ سَيِّئَاتِ مَا مَكَرُوا ۖ وَحَاقَ بِآلِ فِرْعَوْنَ سُوءُ الْعَذَابِ ﴿٤٥﴾ النَّارُ يُعْرَضُونَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَعَشِيًّا ۖ وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذَابِ﴾...غافر
"اللہ نے موسیٰ علیہ السلام کو ان بری تدبیروں سے بچا لیا جو فرعون اور اس کی قوم نے کی تھیں اور قوم فرعون کو برے عذاب نے گھیر لیا۔یہ لوگ آگ پرصبح وشام پیش کیے جاتے ہیں اورجس دن قیامت قائم ہوگی تواللہ حکم دے گا کہ قوم فرعون کو نہایت سخت عذاب میں داخل کردو"(غافر:45۔46)
یہ تو معلوم ہوا کہ موسیٰ علیہ السلام اور بنواسرائیل کو بچا کر فرعون اور اس کی قوم کو جس عذاب میں گھیرا گیا تھا وہ دریا میں ڈبوئے جانے والاعذاب ہے جس سے پورا فرعونی لشکر مرکر ختم ہوگیا ۔اب سوال