کتاب: محدث شمارہ 243 - صفحہ 15
وقت میں اس کے کام آئیں گے لیکن انہوں نے کبھی اسے نفع پہنچایا،یا تو اس وجہ سے کہ خود وہ نفع پہنچانے سےعاجز ہیں ،یا بے پروائی برت کر اس کی طرف دلی توجہ نہ کی۔آخر کار جب سچی احتیاج کے ساتھ اللہ کی طرف متوجہ ہوا،اپنی اطاعت کو صرف اللہ کے ساتھ خاص کرکے اس سے فریاد کی تو اس نے اس کی دعا کو قبول کرلیا۔اور اس کا دکھ دور کردیا۔اور اس کے لیے رحمت کے دروازے کھول دیے۔ایسا شخص توکل اور صرف اللہ سے دعامانگنے کی حقیقت کو اس طرح پالیتا ہے جو کہ دوسرے کو نصیب نہیں ہوتی۔ علی ہذا القیاس جو شخص فرمانبرداری کو اللہ کے ساتھ خاص کردینے اور ماسویٰ اللہ سے علیحدہ ہوکر صرف اسی کی رضا جوئی کی لذت چکھتا ہے۔وہ ایسے حالات محسوس کرتاہے۔اور ایسے نتائج اور ایسے ثمرات حاصل کرتا ہے جو اس شخص کو ہرگز نصیب نہیں جس میں یہ خلوص وغیرہ نہ ہو۔بلکہ جو شخص ریاست اور بڑائی کاطالب ہو،خوبروؤں کے ساتھ دل لگائے اور مال کے جمع کرنے اور دیگر ہوا وہوس میں گرفتار ہو،وہ ان باتوں میں پڑکر،ایسی ایسی فکروں ،غموں ،پریشانیوں ،دکھوں اور تنگدلی میں مبتلا ہوجاتا ہے۔جس کے لیے الفاظ نہیں بلکہ ان پریشانیوں کی وجہ سے بسا اوقات انسان کا دل خواہشات کے ترک کرنے کو بھی مان لیتا ہے۔اگر وہ خداکی مرضی کے خلاف کسی چیز کا طالب ہے تو اسے وہ چیز حاصل نہیں ہوتی جو اسے خوش کردے بلکہ وہ برابر خوف اور پریشانی میں رہتا ہے حصول مطلوب سے پہلے اس کے ن ملنے سے پریشان اور اندوہ گین رہتا ہے اور جب اسے پالے تو اس کے فنا یا جداہوجانے سے خائف رہتا ہے۔ لیکن جو اللہ سے دوستی لگاتے ہیں ،وہ خوف اور پریشانی سے محفوظ رہتے ہیں ۔جب یہ یا اس کی مثل اور شخص اللہ کی خالص فرمانبرداری،عبادت،اس کے ذکر اور مناجات اور اس کی کتاب یعنی قرآن پاک کے فہم کی لذت پاتا ہے اور خدا کے آگے سرتسلیم خم کرتاہے۔اور بایں طور نیکوکار بن جاتا ہے کہ اس کے تمام اعمال صالح لوجہ اللہ ہوتے ہیں تو وہ ایسا سرور اور فرحت پاتا ہے جو دعا اور توکل کرنے والے کو بھی نصیب نہیں ،کیونکہ وہ اپنی د عا اور توکل کے ذ ریعے ایک چیز حاصل کرلیتاہے۔جو دنیا میں سبب منفعت ہوتی ہے یاکوئی دنیا کادکھ اس سے ہٹ جاتا ہے۔جیسا دنیا کا فائدہ اور نقصان تھوڑا،ویسا ہی حصول فائدہ اور دفع ضرر کی حلاوت بھی ناپائیدار(اور جس کی تمام خواہشات مرضیات باری تعالیٰ میں جذب ہوجائیں تو جیسی یہ ایک غیر قانونی چیز ہے ویسا ہی اس کا سرور بھی غیر قانونی) اور ظاہر ہے کہ دل کے لیے توحید اور خالص عبادت خداوندی سے نافع تر اور شرک سے بڑھ کر مضرت رساں کوئی چیز نہیں ۔پس جب انسان نے اخلاص کو پالیا۔جو دراصل إِيَّاكَ نَسْتَعِينُ کی حقیقت ہے۔تو اس نے گویا وہ چیز حاصل کرلی جس کے حصول سے وہ تمام لوگ قاصر رہے جنہوں نے چھوٹی چھوٹی چیزیں تو حاصل کرلیں لیکن اس مقام تک نہ پہنچے۔واللّٰه اعلم۔والحمدللہ رب العالمین وصلوته علی اشرف المرسلین!! (ماخوذ از فتاویٰ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ الحرانی"ج10،ص642تا652،کتاب علم السلوک)