کتاب: محدث شمارہ 243 - صفحہ 14
﴿وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَتَّخِذُ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَنْدَادًا يُحِبُّونَهُمْ كَحُبِّ اللَّهِ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلَّهِ﴾(البقرة:165)
"اور لوگوں میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو اللہ کے سوا(اوروں کو بھی) شریک(خدا) ٹھہراتے (اور) جیسی محبت اللہ سے رکھنی چاہیے ویسی محبت اُن سے رکھتے ہیں اور جو ایمان والے ہیں ان کو تو (سب سے) بڑھ کر اللہ سے محبت ہوتی ہے"
پس معلوم ہواکہ ایمان داروں کے اپنے دل میں جس قدر دوسری چیزوں کی ،بلکہ ہر محب کے دل میں جو اپنے محبوب کی محبت ہوسکتی ہے،ان سب سے بڑھ کر ان کے دل میں اللہ کی محبت ہوتی ہے۔ہم نے اس موضوع پر متعدد مقام پر تفصیل کے ساتھ بحث کی ہے۔اس جگہ صرف یہ بیان کرنا مقصود ہے کہ اہل ایمان کے جو ایمان کی لذت نصیب ہوتی ہے۔اللہ اور اس کے رسول( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی محبت کی وجہ سے حاصل ہوتی ہے۔ اور محبت کی مقدار کے موافق ۔لہذا حضور علیہ الصلواۃ والسلام نے اس حلاوت کو محبت کے ساتھ مشروط کیا ہے ۔چنانچہ فرمایا:
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ ثَلَاثٌ مَنْ كُنَّ فِيهِ ، وَجَدَ حَلَاوَةَ الْإِيمَانِ ؛ أَنْ يَكُونَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ ، أَحَبَّ إِلَيْهِ مِمَّا سِوَاهُمَا ، وَأَنْ يُحِبَّ الْمَرْءَ لَا يُحِبُّهُ إِلَّا لِلَّهِ ، وَأَنْ يَكْرَهَ أَنْ يَعُودَ فِي الْكُفْرِ كَمَا يَكْرَهُ أَنْ يُقْذَفَ فِي النَّارِ .(البخاری:رقم16)
"تین چیزیں جس شخص میں ہوں وہ ایمان کی حلاوت پالیتا ہے:(1) اللہ اور اس کے رسول( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی محبت باقی چیزوں سے بڑھ کر ہو،(2) کسی شخص کو صرف اللہ کی خاطر دوست رکھے اور(3) مسلمان ہونے کے بعد کفر میں لوٹ جانے کو ایسا برا سمجھے جیسا آگ میں ڈال دیئے جانے کو"
توحید اوراخلاص:
جس طرح ہر چیز کی معرفت کے تین درجے ہیں ،اسی طرح لوگوں کو توحید،اخلاص،توکل اور صرف اللہ سے دعامانگنے میں جو فوائد،حاصل ہوتے ہیں ،ان کے بھی تین درجے ہیں ۔ ایک ایسا شخص ہے جس کو صاحب احوال سے یہ باتیں سن کر یا نشانیوں سے نتیجہ نکال کر،اس چیز کا علم حاصل ہوتا ہے۔دوسرا وہ ہے جو ان کے احوال کا مشاہدہ اورمعائنہ کرلیتا ہے اور تیسرا وہ ہے،جس کو اخلاص،توکل علی اللہ،اللہ سے التجاء،اللہ سے مدد چاہنے اور اللہ کے سوا تمام علائق سےکٹ کر صرف اسی کے ہورہنے کی حقیقت کا وجدان بھی نصیب ہوتاہے۔اور یہ شخص اپنے نفس پر اس بات کو آزمالیتا ہے کہ جب کبھی اس نے مخلوق کے ساتھ رشتہ جوڑا،اس سے اُمید رکھی،اس سے اس بات کی طمع کی کہ وہ نفع والی چیزیں کھینچ کر اس تک پہنچادے گی اور تکلیف کو اس سے دور کردے گی تو وہ ہمیشہ اس کی طرف سے بے مدد چھوڑا گیا اور اسے مقصود حاصل نہ ہوا۔بلکہ کبھی لوگوں کی خدمت کی اور ان کے لیے اس طمع پر مال وغیرہ بھی خرچ کیا کہ آڑے