کتاب: محدث شمارہ 243 - صفحہ 11
لوگ ثواب اور عذاب،بہشت اور دوزخ کو دیکھ لیں گے جن کا نہیں وعدہ دیا جاتا تھا۔اور تیسرا درجہ علم اس وقت حاصل ہوگا جب اس ثواب وعذاب کواپنے جسم پر محسوس کریں گے۔یعنی بہشتی بہشت میں داخل ہوکر اور دوزخی دوزخ میں جاکر اس چیز کاذائقہ حاصل کریں گے جس کا انہیں وعدہ دیاجاتا تھا۔
الغرض ہر چیز میں خواہ و دلوں کے اندر ہو یادلوں سے باہر پائی جاتی ہو۔لوگوں کے یہ تین درجے ہیں ۔علی ہذا القیاس اُموردنیا میں بھی،ایک شخص کو خبر ملتی ہے کہ عشق اس چیز کا نام ہے اور نکاح اس کو کہتے ہیں ،لیکن نہ اس نے اسے دیکھا اور نہ اس کی لذت کو محسوس کیا تو اسے صرف اس کا علم ہی حاصل ہے۔پھراگر اس کا مشاہدہ کرلیا لیکن لذت حاصل نہ کی تو اسے اس کا معائنہ حاصل ہوگیا اور اگر بنفسہ اس کا مزہ چکھ لیا تو اسے اس بات کا ذوق اور تجربہ حاصل ہوگیا۔اور جس شخص کو کسی چیز کا ذوق نہیں ،اسے اس حقیقت کی معرفت بھی نہیں کیونکہ الفاظ کے ذریعہ سے کسی چیز کی صرف مثال دی جاسکتی ہے اور اسے ذہن کے قریب کیا جاسکتاہے۔باقی رہی اس کی شناخت کلی،تو وہ محض الفاظ کے ذریعہ کسی کو حاصل نہیں ہوسکتی،سوائے اس شخص کے جو پہلے اس چیز کو محسوس کرچکا ہو، جس کی تعبیر بیان ہورہی ہے اور اس کی اچھی طرح شناخت اور تجربہ کرچکا ہو۔ایسے لوگوں کو اہل معرفت اسی لیے کہا جاتا ہے کہ دوسروں کو جس چیز کا علم کسی کے خبر دینے یا خود غور کرنے سے حاصل ہوا ہے انہوں نے اس کی حقیقت کو ذاتی تجربے اور ذوق سے پہچان لیا۔
حلاوت ایمان:
صحیح حدیث میں ہے کہ ہر قل شاہ روم نے ابو سفیان بن حرب سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کئی ایک باتیں دریافت کی تھیں ،ان میں سے ایک یہ بھی تھی کہ"جب کوئی شخص دین اسلام میں داخل ہوجاتا ہے تو کیا اس سے متنفر ہوکر لوٹ بھی جاتا ہے؟"ابو سفیان نے جواب دیا:"نہیں ،۔۔۔اس پر ہرقل نے کہا:
"وكذلك الإيمان حين تخالط بشاشته القلوب لا يسخطه أحد."
"واقعی ایمان کی شیرینی ایسی ہے کہ جب اس کی تازگی دلوں میں سرایت کرجاتی ہے تو کوئی بھی شخص اس سے نفرت نہیں کرتا"(البخاری)
الغرض ایمان جب دل میں رچ جائے اور اس کی تازگی اس میں سرایت کرجائے تو وہ اس سے کبھی نفرت نہیں کرتا بلکہ اسے پسند کرتاہے۔کیونکہ دل میں ایمان کی اس قدر شیرینی،لذت ،سرور اور شادمانی ہوتی ہے کہ جس نے اسے محسوس نہیں کیا،اس کے سامنے اس کی تعبیر ناممکن ہے۔
لوگ ذوق ایمان کے مدارج میں ایک دوسرے سے کم وبیش ہیں ۔دل میں جو فرحت اور سرور پیدا ہوتا ہے۔ اس سے ایک قسم کی شگفتگی اور طاعات پر آمادگی اور دل میں ٹھنڈک پیدا ہوتی ہے۔جو اس ذوق کے مقدار کے موافق ہوتی ہے۔اور جب یہ چیز دل میں اچھی طرح رچ جائے تو دل اس سے کبھی