کتاب: محدث شمارہ 243 - صفحہ 10
"جس شخص میں تین چیزیں ہوں اس نے ایمان کی حلاوت پالی:وہ شخص جو اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو باقی تمام چیزوں سے بڑھ کر دوست رکھتا ہے۔۔۔وہ شخص جس کسی شخص سےصرف اللہ کی خاطر دوستی رکھے ۔۔اور تیسرا وہ شخص جسے اللہ نے کفر سے نکال لیا اوروہ کفر میں لوٹ جانے کو ایسا بُرا جانتا ہو جس طرح آگ میں ڈال دیئے جانے کو" نیز فرمایا:"ذَاقَ طَعْمَ الإيمانِ : مَنْ رَضِيَ باللّٰه ربًّا، وبالإسلام دينًا، وبمحمَّدٍ رَسُولاً"
"اس شخص نے ایمان کامزہ پالیا جو اللہ تعالیٰ کے رب ہونے،اسلام کے دین برحق ہونے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہونے پر راضی ہوا"
(رواہ مسلم۔مشکواۃ:کتاب الایمان ،رقم8)
وجد اور ذوق کے تین درجے:
اہل ایمان کو جو ایمان کی شیرینی اورمزہ حاصل ہوتا ہے ،اس میں لوگوں کے تین درجے ہیں ۔پہلا درجہ یہ ہے کہ کسی شخص کو صرف اتنا ہی معلوم ہو کہ ذوق اور وجد کوئی چیز ہے مثلاً اسے شیخ نے بتلایا کہ ذوق ایک درجے کا نام ہے تواس نے اسے سچ سمجھا،یا اہل معرفت نے اپنے متعلق جو باتیں کہی ہیں وہ ان تک پہنچ گیا،یا ان کے احوال کی نشانیاں ،مثلاً ایسی کرامات دیکھیں جو ذوق پردلالت کرتی ہیں ۔دوسرا درجہ اس شخص کا ہے جس نے اس ذوق کا مشاہدہ اور معائنہ بھی کرلیا۔مثلا ً اہل معرفت اور اہل صدق ویقین کے ایسے احوال کا مشاہدہ کیا جس سے معلوم ہو اکہ یہ لوگ ارباب وجد وذوق ہیں ۔تواگرچہ اس شخص نے در حقیقت اس حالت کو نہیں پایا تاہم ایسی چیز کو تو دیکھ لیا جو اس حالت پر دلالت کرتی ہے اور یہ شخص بہ نسبت اس شخص کے حقیقت سے زیادہ قریب ہے جس نے اسے دیکھا نہیں ۔بلکہ اس کے متعلق محض خبر حاصل کی ہے۔اور اہل معرفت کی کرامتیں دیکھ کر اس کے وجود کی دلیل پکڑی ہے۔تیسرادرجہ یہ ہے کہ جس ذوق اور وجد کو اس نے دوسروں سے سنا ہے،اسے اپنے نفس میں بھی پایا ہو۔چنانچہ ایک بزرگ کا مقولہ ہے۔"مجھ پر ایسی حالت طاری ہوئی کہ فرط ذوق ووجد میں کہہ رہا تھا کہ اگر اہل جنت کو جنت میں ایسی حالت نصیب ہوجائے تو یقیناً وہ اعلیٰ قسم کے عیش میں ہوں گے"
ایک اور بزرگ فرماتے ہیں :"بعض اوقات دل پر ایسے احوال طاری ہوتے ہیں کہ مارے خوشی کے وہ رقص کرنے لگ جاتاہے"
اسی طرح ایک اور صاحب ذوق کامقولہ ہے؛"رات کو جاگنے والے جاگنے میں وہ لذت حاصل کرتے ہیں کہ لہوولعب میں مشغول ہونے والوں کو لہو ولعب میں نصیب نہیں ہوسکتی"
اسی طرح آخرت کے متعلق جن اُمور کی خبر دی گئی ہے ،اس میں بھی لوگوں کے تین درجے ہیں پہلا درجہ یہ ہے کہ ان باتوں کاخالی علم ہی ہو،جو انبیاء علیہم السلام کے خبر دینے،یا ان دلائل سامنے آجانے سےحاصل ہوا ہو جو امور آخرت کا عقلی ثبوت ہیں ۔دوسرا درجہ علم اس وقت حاصل ہوگا جب