کتاب: محدث شمارہ 242 - صفحہ 9
کے لیے بھیجا گیا تھا،ان کے سردار حضرت جریر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے۔ان کی آنکھوں میں سلائیاں پھیرنے کے متعلق صحیح مسلم میں یہ موجود ہے کہ"انہوں نے چرواہوں کے ساتھ بھی یہی کیاتھا،پس یہ اس کا بدلہ اور ان کا قصاص تھا،جوانہوں نے ان کے ساتھ کیاتھا وہی ان کے ساتھ کیا گیا ۔"مفسرین ابن کثیر لکھتے ہیں کہ بعض روایتوں میں ہے کہ قتل کے بعد انہیں جلادیاگیا۔ تاویلات کے خوگر بعض اہل الرائے نے مندرجہ بالا آیت کے متعلق بے حد عجیب نکتہ آفرینی کی ہے۔ان کے خیال میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ عرینہ کے لوگوں کو جو سزا دی وہ اللہ کو پسند نہ آئی،رئیس المفسرین علامہ ابن کثیر ایسے تاویل بازوں کی تردید میں ارشاد فر ماتے ہیں : "بعض بزرگوں کاقول ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جو سزا دی وہ اللہ کو پسند نہ آئی اور اس آیت(المائدہ:2/33) سے اسے منسوخ کردیا۔ان کے نزدیک گویا اس آیت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوسزا سے روکا گیا ہے۔اور بعض کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مثلہ کرنے سے یعنی ہاتھ پاؤں ،کان،ناک کاٹنے سے جو ممانعت فرمائی ہے۔اس سے یہ سزا منسوخ ہوگئی لیکن یہ دعویٰ نسخ دلیل کامحتاج ہے۔ پھر بھی یہ سوال طلب امر ہے کہ ناسخ کی تاخیر کی دلیل کیا ہے بعض کہتے ہیں کہ حدود اسلام مقرر ہونے سے پہلے کا یہ واقعہ ہے لیکن یہ بھی ٹھیک نہیں بلکہ یہ واقعہ حدود کے تقرر کے بعد کا ہے ا س لیے کہ ایک حدیث کے ایک راوی حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں اور ان کا اسلام سورہ مائدہ کے نازل ہوچکنے کے بعد کا ہے۔ بعض کہتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھیرنی چاہی تھیں لیکن یہ آیت اتری اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ارادہ سے باز رہے،لیکن یہ بھی درست نہیں اس لیے کہ بخاری ومسلم میں یہ الفاظ ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی آنکھوں میں سلائیاں پھر وائیں ۔ایک روایت میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر کسی کو یہ سزا نہ دی" آج بھی بعض افراد اس طرح کی پھس پھسی اور بے وقعت تاویلات کوجمع کرکے اپنے دلائل کی عمارت کھڑی کرنے کا میلان رکھتے ہیں ۔اسی لیے راقم الحروف نے علامہ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ کی زبانی ا ن کاجواب درج کرنا مناسب سمجھا ہے۔ان شبہات کی مزید وضاحت آگے آرہی ہے۔ قصاص کے نفاذ کا طریقہ کار: اس بارے میں فقہاء کے درمیان پایا جانے والااختلاف حسب ذیل ہے: مالکیہ کاموقف:ابن قاسم امام ماک رحمۃ اللہ علیہ سے روایت کرتے ہیں کہ اگر قاتل نے لاٹھی یا پتھر سے یاآگ میں جلا کریا پانی میں ڈبو کرہلاک کیاتو قصاص میں قاتل کے ساتھ بھی ویسا ہی کیا جائے گا اور اس پر موت تک وہی عمل دہرایا جاتا رہے گا،خواہ اس کے جرم کی مقدار سے بڑھ ہی کیوں نہ جائے،البتہ دو وجوہ اور دو حالتوں میں ایسا نہیں کیا جائے گا: وجہ اول:اگر قاتل نے کسی ناجائز عمل مثلاً شراب پلا کر یالواطت کے ذریعہ قتل کیاتو مجرم کے ساتھ وہی نہیں کیا جائے گا بلکہ اسے تلوار سے قتل کردیاجائےگا۔ وجہ دوم:اگر مجرم نے زہر پلا کر یا آگ کے زریعہ ہلاک کیا تو قصاص میں اس طرح قتل نہیں کیاجائے گا بلکہ یہ مثلہ کی صورت ہے۔ اس وجہ دوم کے بارے میں ابن العربی کہتے ہیں : میرے نزدیک یہاں ممانعت کی علت مثلہ نہیں بلکہ یہ