کتاب: محدث شمارہ 242 - صفحہ 8
شان نزول:اس آیت مبارکہ میں لفظ اس يُقَتَّلُوا استعمال ہواہے۔جس کا لفظ مطلبی مطلب"ٹکڑے ٹکڑے کرنا" ہے۔مختلف تفاسیر میں اس آیت کے شان نزول کے متعلق جو تفصیلات ملتی ہیں ،اس کی رو سے یہ آیت قبیلہ عرینۃ کے دغاباز،مرتد،ظالم افراد کے بارے میں اتری ہے۔تفسیر ابن کثیر میں بالتفصیل سے اس آیت کا پس منظر بیان کیا گیا ہے۔چنانچہ بخاری ومسلم میں ہے کہ قبیلہ عرینۃ(عکل) کے آٹھ آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے،آپ نے ان سے فرمایا اگر تم چاہو تو ہمارے چرواہے کے ساتھ چلے جاؤ،اونٹوں کا دودھ وغیرہ تمہیں ملے گا،چنانچہ یہ گئے اور ان کی بیماری جاتی رہی تو انہوں نے ان چرواہوں کو مارڈالا اور اونٹ لے کر چلتے بنے۔انہوں نے چرواہوں کی آنکھوں میں گرم سلائیاں بھی پھیری تھیں ۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ خبر پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین کو ان کے پیچھے دوڑایا کہ انہیں پکڑ لائیں ۔چنانچہ یہ گرفتار کئے گئے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کئے گئے۔پھر ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیئے گئے اور آنکھوں میں گرم سلائیاں پھیری گئیں اور دھوپ میں پڑے ہوئے تڑپ تڑپ کرمرگئے۔صحیح مسلم میں ہے یہ پانی مانگتے تھے مگر انہیں پانی نہ دیا گیا۔نہ ان کے زخم دھوئے گئے۔انہوں نے چوری بھی کی تھی ،قتل بھی کیا تھا،ایمان کے بعد کفر بھی کیا تھا اور اللہ ورسول صلی اللہ علیہ وسلم سے لڑتے بھی تھے۔ موت کے وقت پیاس کے مارے ان کی یہ حالت تھی کہ زمین چاٹ رہے تھے۔(تفسیر ابن کثیر میں ہے کہ جو لشکر ان مرتدوں کو گرفتار کرنے
[1] یہاں اس امر کی طرف بھی توجہ دینا ضروری ہے۔ کہ ایسی سزا اس شخصیت کے حکم اور نگرانی میں نافذ العمل ہوئی جسے دنیا رحمۃ اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک لقب سے یاد کرتی ہے۔اس سے پتہ چلتاہے کہ امت کے ساتھ بے مثال رحمت وشفقت ا پنی جگہ ،لیکن مجرم سے اگر اسی رحمت کا برتاؤ کیا جائے تو جرائم کی حوصلہ افزائی ہوکران کی بیخ کنی مشکل ہوجائے گی۔یہی وجہ ہے کہ رحمۃ اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی عدالت سے ان مجرموں کو ایسی اذیت ناک سزا ملی۔معلوم ہوا کہ مجرم کے انسانی حقوق کا تحفظ یا شرف آدمیت کا احترام شریعت کی نظر میں اس وقت جاتا رہتا ہے۔جب مجرم اپنے اعمال شنیعہ کے ذریعے اشرف المخلوقات کی مرتبے سے اتر کر بد اعمالی کے قعر مذلت میں جاگرتا ہے۔قرآن کریم کی سورۃ التین میں یہی اصول اس طرح بیان ہواہے کہ"ہم نے توانسان کو بہترین ساخت میں پیدا فرمایا،لیکن اپنے بدتر اعمال کی بنا پر دو اسفل سافلین(بدترین گہرائی) میں جاگر تا ہے۔"
اسی طرح انسانی حقوق کے منادوں کا یہ دعویٰ مغالطہ آ میز ہے کہ مجرم کو پبلک کے سامنے اس لیے سزا نہ دی جائے کیونکہ ا س سے انسانی حق تکریم کی نفی ہوتی ہے۔اسلام میں انسان کی تکریم ،انسان سے کوئی مستقل بالذات شے نہیں جو کبھی اس سے جدا نہیں ہوتی بلکہ اسلام میں تکریم کا یہ فلسفہ اعمال تقویٰ سے جڑا ہواہے۔جو انسان نیک اعمال اور بھلائی کے کام کرتا ہے وہ قابل تکریم ہے،قرآن کریم میں ہے:﴿إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ ﴾(الحجرات:46)"تم میں سب سے باعزت وہ ہے جو سب سے زیادہ نیکو کار ہے"
اور جو انسان برائی یا ظلم میں ملوث ہوجائے،اور بدترین گناہوں کا مرتکب بن جائے تو شریعت اسلامیہ کی نظر میں وہ انسانیت کے مرتبے سے گرجاتا ہے۔قرآن کریم میں ہے:
﴿ وَمَنْ يُهِنِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِنْ مُكْرِمٍ﴾"جس کو اللہ رسوا کردے اس کو کوئی عزت نہیں دے سکتا"
ان قرآنی آیات اور اسلامی تصورات کی روشنی میں یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ مغرب کا انسانی حقوق کا نظریہ شرف آدمیت اسی افراط وتفریط کا شکار ہے۔ جس سے انسانوں کے بنائے دیگر نظریات عموماً متاثر نظر آتے ہیں ۔انسانی تکریم کا ہر دم باقی رہنے والا یہ فلسفہ اسلام کی نظر میں ساقط الاعتبار ہے۔اسلام مجرم کو عزت دے کر جرائم کو چھوٹ دینے کاقطعا ً رواداد نہیں ہے۔بلکہ اس کی سزا کو باعث عبرت بنانے اور کھلم کھلا دینے کا سبق دیتا ہے۔سورۃ النور ،آیت 2 میں ہے:﴿ وَلْيَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَائِفَةٌ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ ﴾
"اور ان دونوں کو سزا دیتے ہوئے مسلمانوں کا ایک گروہ موجود رہے"(حسن مدنی)