کتاب: محدث شمارہ 242 - صفحہ 78
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدد نکاح کیے بھی تو ہجرت کے بعد جب مسلمان اور مشرکین کے درمیان جنگیں چھڑ چکی تھیں ،وہ باہم برسر پیکار تھے اور ہر طرف قتل وغارت کا دور دورہ تھا اور یہ دو ہجری سے آٹھ ہجر ی تک کا نہایت قلیل عرصہ ہے جس کے اندر اللہ نے مسلمانوں کو نصرت وفتح سے سرفراز فرمایا(اور لوگ جوق در جوق اسلام میں داخل ہونے لگے)۔۔۔اس نکتہ پر غور کرنے سے یہ حقیقت کھل جاتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر شادی عظمت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کے عظیم مقصد کی آئینہ دار اورایثار وقربانی،احسان جمیل کا مثالی نمونہ تھی۔
بہتان تراش معاندین اسلام کے تمام الزامات بے کار ہیں ۔اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل پر ہویٰ پر ستی کا غلبہ ہوتا تو یقیناً تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم عین جوانی کے عالم میں نوجوان کنواری لڑکیوں سے شادی کرتے۔در اصل بغض وتعصب کی شدت نے ان مغربی مستشرقین کے دلوں کو حق کی واضح روشنی دیکھنے سے اندھا کردیا ہے۔اللہ نے سچ فرمایا ہے:
﴿ بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَى الْبَاطِلِ فَيَدْمَغُهُ فَإِذَا هُوَ زَاهِقٌ﴾(الانبیاء :18)
"بلکہ ہم حق کے ہتھیار سے باطل پر ضرب لگاتے ہیں تو وہ باطل کا سرکچل ڈالتا ہے پھر اچانک باطل ملیامیٹ ہوجاتا ہے"[1]
آخر میں ہم معروف عیسائی عالم گوسٹاف لیون کابیان نقل کرنا مناسب سمجھتے ہیں جسے علی احمد الجرجادی نے اپنی کتاب حکمۃ التشریع وفلسفتہ کی دوسری جلد کے ص16 پر ذکر کیا ہے،وہ لکھتا ہے ۔
"تعدد زوجات کانظام حقیقت میں ایک مستقل نظام ہے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی پہلے مشرقی اقوام میں موجود تھا،یہ نظام عہدقدیم سے اہل فارس،یہوداور عربوں میں مروج تھا اور ادیان عالم میں سے کسی دین میں یہ طاقت نہیں کہ وہ اس نظام کو منسوخ کرسکے جسے قرآنی دین نے برقرار رکھا ہے"
اس کے بعد لکھتا ہے:
"اہل مشرق کا یہ شرعی نظام تعدد ازواج اہل مغرب کے فحش نظام سے گراہواکیسے ہوسکتاہے؟جبکہ مغربی نظام زواج میں محض قانون کی حد تک تو صرف ایک ہی بیوی ہوسکتی ہے جبکہ عادتاً شاذونادر ہی کوئی ایسا شخص ہوگا جو صرف ایک عورت پر قناعت کرتا ہو"
[1] انگریز مستشرق ٹامس کارلائل کا اقتباس اس لائق ہے کہ اس کو عظمت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کے طور پر ذکر کیاجائے،وہ لکھتا ہے:
"محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے بارے میں اور کیا کچھ بھی کہا جائے لیکن وہ خواہش نفس کے غلام ہرگز نہیں تھے۔ہم بڑی غلطی کریں گے اگر اس انسان کو(معاذاللہ) ایک عام سانفس پرست سمجھ لیں جو سفلی جذبات بلکہ کسی بھی لطف اندوزی کا مریض ہو۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاگھرانہ تنگ دست تھا،آپ کی عام غذا جو کی روٹی اور پانی تھا۔بسا اوقات مہینوں ان کے ہاں چولہے میں آگ نہ جلتی۔سیرت نگار فخریہ لکھتے ہیں کہ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی جوتیوں کی خود مرمت کرلیاکرتے تھے۔ اپنی عبامیں خود پیوند لگاتے۔وہ ایک غریب،شفقت کرنے والے کم وسیلہ شخص تھے جو ہر اس چیز سے بے نیاز تھے۔جس کے لیے عام آدمی مشقت کرتے ہیں ۔میں تو کہوں گا:وہ ہرگز بُرے انسان نہ تھے۔ان میں ہر قسم کی بھوک سے بہتر کوئی شے ضرور تھی،ورنہ وہ اجڈ عرب لوگ جو تئیس سال تک ان کے اشارےپر(دشمن) سے جنگیں کرتے رہے،ہمیشہ ان(نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ) کی مصاحبت میں رہے،ان کاایسا احترام نہ کرتے۔کسی شہنشاہ کی تاج وکلاء سمیت ایسی اطاعت نہیں ہوئی جیسی ا س شخص کی ہوئی جو اپنی عبا میں خود پیوند لگا لیتے تھے"(ازواج مطہرات اور مستشرقین از ظفر علی قریشی،مترجم آسی ضیائی:ص46)