کتاب: محدث شمارہ 242 - صفحہ 76
یہ واقعہ مختصراً یوں ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار مکہ سے ان کی پیش کردہ شرائط پر دس سال تک جنگ بندی کا معاہدہ کرلیا تو مسلمان سخت دل گرفتہ اور تذبذب کاشکار ہوئے اور انہوں نے سمجھا کہ حق پر ہونے کے باوجود ان ذلت آمیز شرائط پر صلح کرنا ہماری حق تلفی ہے۔چنانچہ اس ناگواری طبع کا اثر یہ ہواکہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سر منڈانے اور قربانی کرنے کا حکمدیا تو انہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حکم پر عمل کرنے میں تامل ہوا۔پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ذوجہ ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس آئے اور فرمایا: لوگ تباہ ہوگئے،میں نے انہیں حکم دیا لیکن وہ اس پر عمل کرنے میں تامل کا شکار ہیں ۔حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے معاملے کو آسان بنادیا اور آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کو مشورہ دیاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے سامنے جاکر اپنا سر منڈوا دیجئے،مجھے یقین ہے کہ جب وہ آپ کو دیکھیں گے تو انہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں کوئی تردد نہیں ہوگا اور ایسے ہی ہوا کہ جونہی آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجام کواپنے سرمونڈ نے کا حکم دیا تو صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں سبقت کی اور فوراً اپنے سر منڈوادیے اور احرام کھول دیے۔اس طرح حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی تدبیر سے یہ مشکل حل ہوگئی۔ 8۔حضرت ام حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا رملہ بنت ابو سفیان: 7ہجری میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ام حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے نکاح کیا۔ ان کا پہلا نکاح عبداللہ بن جحش سے ہوا تھا جو سرزمین حبشہ میں فوت ہوگیا تو نجاشی نے ان کا نکاح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کردیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے چار ہزاردرہم مہرادا کیا۔اس کے بعد شرجیل بن حسنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی معیت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں روانہ کردیا۔ان سے نکاح کرنے کی حکمت پہلے گزر چکی ہے۔[1] 9۔حضرت جویریہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بنت حارث: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جویریہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے نکاح جو کہ حارث بن ضرار قبیلہ بن مصطلق کے رئیس کی بیٹی تھی۔ ان کی پہلی شادی مسافع بن صفوان سے ہوئی تھی جو غزوہ مریسع میں قتل ہوگیا اور جویریہ مسلمانوں کےہاتھ میں قید ہوگئی۔ان کا خاوند اسلام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بدترین دشمن تھا۔[2]
[1] ام حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے نکاح پر غور کرنے سے اس نکاح کی حکمت کا پتہ چلتاہے۔ان کا والد ابو سفیان اپنی قوم کا سردار تھا۔قوم کا نشان جنگ ان کےگھر میں رکھا جاتا تھا۔وہ مسلمانوں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بدترین دشمن تھا۔اس نے جنگ اُحد حمراء الااسد اور بدر الاخریٰ میں کفار کے لشکر کی قیادت کی۔پھر جنگ احزاب میں مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دینے کا عزم لیے عرب کے تمام قبائل کو ساتھ لے کر چڑھ دوڑا۔لیکن جب اس کی بیٹی پیغمبر کے نکاح میں آئی تو اس کے بعد وہ کسی جنگ میں مسلمانوں کے خلاف لشکر کشی کرتا نظر نہیں آتا ۔آخر وہ وقت بھی آیا کہ وہ حلقہ بگوش اسلام ہوکر لشکر اسلام کے سپاہی بن گئے۔پھر لوگوں نے دیکھا کہ یہی خاندان لشکر اسلام کی قیادت کرتا نظر آتا ہے۔ [2] حضرت جویریہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے نکاح کی حکمت دیکھئے۔۔۔ان کا باپ عرب کا مشہور ڈاکو اور مسلمانوں کا جانی دشمن تھا ۔بنو مصطلق کا مشہور طاقتور اور جنگجو قبیلہ اس کے اشاروں پر چلتا تھا۔اس نکاح سے پہلے مسلمانوں کے خلاف ہونے والی ہر ایک جنگ میں یہ قبیلہ ضرور اس میں شامل ہوا۔ لیکن اس نکاح کے بعد مخاصمت نابود اور دشمنیاں ناپید ہوگئیں ۔تمام قبیلہ نے راہزنی چھوڑ کر متمدن زندگی اختیار کرلی اور پھر مسلمانوں کےخلاف کسی جنگ میں شرکت نہیں کی۔