کتاب: محدث شمارہ 242 - صفحہ 75
7۔حضرت اُم سلمہ ہند مخزومیہ: اُم سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح کرنے سے پہلے حضرت ابو سلمہ عبداللہ بن اسد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نکاح میں تھیں ۔ ان کے خاوند نہایت قدیم الاسلام تھے اورانہوں نے حبشہ کی طرف بھی ہجرت کی۔اُم سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے بھی اپنے دین کو بچانے کی خاطر ا پنے شوہر کے ساتھ ہجرت کی۔اسی دوران ان کے ہاں سلمہ پیدا ہوئے۔اُن کے خاوند جنگ اُحد میں شہید ہوگئے۔ اور یہ ا پنے چار یتیم بچوں کے ساتھ بے یارومددگار ہوگئیں ۔اب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ان کے ساتھ ہمدردی اور ان کے یتیم بچوں کی کفالت کی یہی ایک صورت تھی کہ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم خود ان سے شادی کرلیتے۔چنانچہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں نکاح کاپیغام بھیجا تو انہوں نے یہ کہہ کرمعذرت کی کہ میں ایک عمر رسیدہ ،یتیم بچوں کی ماں اور تیز مزاج عورت ہوں ۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا"بچوں کا نان ونفقہ تو ہمارے ذمہ ہے باقی رہی تیز مزاجی تو میں اللہ سے دعا کروں گا،اللہ اس تیز مزاجی کو دور کردے گا،باقی رہا عمر کا معاملہ تو اس کی کوئی پرواہ نہیں ۔چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُم سلمہ کی رضا مندی کی بعد ان سے نکاح کرلیا۔اس کے بعد نہایت وسعت قلبی سے ان کے یتیم بچوں کی تربیت اور پرورش کی کہ انہیں باپ کی جدائی تک کا احساس نہ ہونے دیا۔کیونکہ اب انہیں ایسا باپ مل گیا تھا جو ان کےوالدحقیقی سے زیادہ مشفق اور مہربان تھا۔[1] اُم المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا خاندانی شرف ،معزز گھرانہ اور سبقت اسلام کے شرف ایسی خوبیوں سے بہرہ ور تھیں اور سب سے بڑھ کر جو خوبی تھی وہ ان کی کمال دانشمندی اور ذہانت تھی جس کی دلیل کے لیے یہی کافی ہے کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کے معاملے میں خاصے پریشان تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مشورہ کیا تو انہوں نے اپنی عقل و ذہانت سے اس مشکل کوحل کردیا۔
[1] در اصل حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا آ پ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ نکاح ان کی اور ان کے خاوند کادعا کانتیجہ تھاجو اللہ نے قبول فرمالی۔چنانچہ مسند احمد میں اُم سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کیا کہ ایک روز ابو سلمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہوکر گھرآئے اوربتایا کہ آج میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سےمسرت آمیز بات سنی ہے کہ کسی مسلمان کومصیبت پہنچے اور وہ اس وقت انااللہ واناالیہ راجعون کے بعدیہ دعا پڑھے:"اللهم أجرني في مصيبتي واخلف لي خيراً منها" "اے اللہ مجھے اس آزمائش سے چھٹکارا دلا اور مجھے اس کا نعم البدل عطا کر" تو حسب خواہش اس کی مراد پوری ہوتی ہے۔میں نے یہ دعاحفظ کرلی۔جب ابو سلمہ فوت ہوئے تو میں نے اناللَّہ واناالیہ راجعون کے بعد مذکورہ بالا دعا پڑھی اور دل میں سوچا کہ ابو سلمہ سے کون بہتر ہوسکتا ہے؟ عدت کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر تشریف لائے اور مجھے شادی کا پیغام دیا۔میں نے عرض کیا:" یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسی کوئی بات نہیں ،لیکن میں ایک غیور(تیز مزاج) عورت ہوں ،مجھے اندیشہ ہے کہ آپ کومیری کوئی بات ناگوار گزرے اور میں عذاب الٰہی کی مستوجب ہوجاؤں ۔علاوہ ازیں میں عمر رسیدہ اور عیال دار ہوں "۔۔۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" تیز مزاجی تو اللہ رفع کردے گا،باقی رہا عمر کامعاملہ تو میں بھی تمہاری عمر کا ہوں ۔ اور تمہارا اہل وعیال میرا کنبہ ہے۔"پھر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی رضا کا اظہار کردیا۔اس طرح اللہ نے مجھے ابو سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بہتر شوہر دے د یا۔(البدایہ والنہایہ)