کتاب: محدث شمارہ 242 - صفحہ 74
کردیا اس سے یہ مطلب تھا مسلمانوں کو اپنے لےپالک لڑکوں کی بیویوں سے نکاح کرلینے میں جب وہ اپنی خواہش پوری کرچکیں کوئی تنگی نہ رہے۔"[1] اس طرح ان منہ پھٹ مستشرقین کی طرف سے لگائے گئے تمام الزامات ان واضح اور مضبوط دلائل کے سامنے ملیامیٹ ہو جاتے ہیں جو پیغمبر کی عصمت اور طہارت پر واضح دلالت کرتے ہیں ۔
[1] کیا متنبیٰ کی اس جاہلی رسم کا خاتمہ واقعی اس قدر اہمیت کا حامل تھا کہ اس کی خاطرپیغمبرگوشدید کرب کا شکار ہو نا پڑا منافقین کے طعنے سننے پڑے ۔وہاں واقعتاًیہ رسم اس قدر غلط تھی کہ اس کاخاتمہ ضروری تھا جس کی وجوہات یہ ہیں ۔ یہ رسم فی الحقیقت قدرت خداوندی کا گستاخانہ جواب تھی متبنیٰ کرنےوالا شخص گویا خدا اسے یہ کہا کرتا تھا کہ اگر تونے مجھے فرزند نہیں دیا توکیا ہوا میں نے کسی اور ذریعہ سے بیٹا حاصل کر لیا ہے اس کے علاوہ ۔ (الف) اس رسم کا خاندانی وارث ان کے حقوق پر برابر اثر پڑتا تھا کیونکہ ورثاء تو حقیقی طور پر وارث ہوتے تھے اور یہ محروم کنندہ مصنوعی طریقہ سے وارث بنایا جا تا تھا خصوصاً جب املاک و جائیداد پرانی چلی آرہی ہوں تب رسم تبنیت سے پورے خاندان میں عداوتوں کی بنیاد قائم ہوجاتی تھی اور کبھی ختم نہ ہونے والے جھگڑے برپا ہوجایا کرتے تھے۔ (ب)بننے والا فرزند جو شجر ہ خاندان سے شاخ بریدہ کی طرح ہوتا تھا ،اس کے دل میں یہ حقیقت ہمیشہ خارکی طرح کھٹکتی رہتی تھی کہ اس نئے خاندان سے سچ مچ اس کا کوئی خونی تعلق نہیں ۔اور اس سے محبت کی ساری بنیاد یں ظاہری اور اوپری رسوم پرہیں ۔ اسی طرح اگر وہ اپنے برادران حقیقی کو اچھی حالت میں دیکھتا تھا تو ان پر حسد کرتا اور اگر اس کے برادران حقیقی اچھی حالت میں دیکھتے تو اس سے حسدکیا کرتے تھے۔ (ج)متبنیٰ کرنے والا اگرچہ متبنیٰ کی اس کے لڑکین میں بڑے چاؤ سے پرورش کیا کرتا تھا لیکن اس کے بلوغ کے بعد جب دیکھتا کہ اس شخص کے خاندانی اوصاف سے وہ متبنیٰ کس قدر عاری ہے اور اس کے اقارب کے ساتھ اس کو کس قدر بیگانگی ہے تو اس کا دل بجھ جاتا۔ (د)ادھر اس کا حقیقی باپ جس نے اپنے جگر کے ٹکڑے سے خود محرومی گواراکی تھی اور جس کے قلبی تعلق کو ظاہری رسوم قطع نہیں کر سکتے تھے جب دوسرے گھر میں اپنے فرزند کو کسی مصیبت میں دیکھتا تو وہ جھٹ اس مصیبت کو اپنے ہی فعل کا نتیجہ قراردیتا اور اپنے آپ کو ملازمت کرتا اور اپنے کئے پرپچھتاتا۔ ان تمام احوال سے یہ ثابت ہوتا ہےکہ تبنیت کا مصنوعی اثر ہر جگہ کڑوا ہی ثابت ہو تا ہے ہاں اس بناوٹی حالت کو خضاب کے ساتھ تشبیہ دی جاسکتی ہے جس کی بابت کوئی شاعر کہہ گیا:آخر تو کھل ہی جاتی ہے رنگت خضاب کی۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے یہ پسند فرمایا کہ اسلام اس جاہلانہ رسم کی بھی اصلاح کرے اور اللہ کا رسول جو دنیا بھر کے لیے رحمت اور مصلح اعظم ہے خود اپنی نورانی شخصیت اور پاک وجود سے بطور اسوہ حسنہ غلط رواج کا خاتمہ کریں اسی لیے رحمت قرآن کریم میں یہ نازل کردیا گیا تھا :﴿ مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ﴾ (الاحزاب 40) "محمد تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں ۔" ﴿ وَمَا جَعَلَ أَدْعِيَاءَكُمْ أَبْنَاءَكُمْ ذَلِكُمْ قَوْلُكُمْ بِأَفْوَاهِكُمْ﴾ (الاحزاب:4) "خدا نے تمہارے منہ بولے شخصوں کو تمہارا بیٹا نہیں بنایا یہ سب تمہارے اپنے منہ کی باتیں ہیں " (رحمۃللعالمین از قاضی سلیمان منصور پوری : جلد دوم ص169،168)