کتاب: محدث شمارہ 242 - صفحہ 7
ڈاکٹراحمد فتحی بہنسی کی معروف تالیف القصاص فی الفقہ الاسلامی میں قصاص کی وضاحت درج ذیل الفاظ میں ملتی ہے:(صفحہ 52،53) "قصاص کا لفظ قص الاثر سے ماخوذ ہے جس کا معنی ہے روایت یااثر کی بتدریج پیروی کرنا۔اس سے القاص(قصہ گو) نکلا ہے کیونکہ وہ آثار واخبار کی پیروی کرتاہے۔ اس اعتبار سے قصاص کا معنی یہ ہوا کہ گویا قاتل،قتل کا جو راستہ اختیار کرتا ہے اس کے قدموں کے نشانوں پر اس کا پیچھا کیاجاتاہے۔یہ بھی کہا گیا ہے کہ قص کا معنی کاٹنا ہے۔چنانچہ محاورہ ہے:قصصت ما بينهما یعنی ان دونوں کے باہمی تعلقات منقطع ہوگئے۔قص الشعر کے معنی ہیں :بال تراشنا،اسی لفظ سے قصاص نکلا ہے کیونکہ قصاص جراحت کے عوض جراحت ر سانی یا قتل کے بدلے قتل کا نام ہے۔فقہ اسلامی کی کتابوں میں قصاص کا ذکر عموماً جنایات کے تحت کیا جاتا ہے۔جنابت لغت میں بُرا کام کرنے کو کہتے ہیں ۔شریعت میں جنابت کااطلاق ہر ا س فعل پر ہوتاہے۔جس کا ارتکاب شرعاً حرام ہو،یہ فعل مال کے خلاف ہو یاجان کے ،لیکن اصطلاح فقہا میں جنابت ا س فعل ممنوع کو کہتے ہیں جو کسی کی جان یا اعضائے جسم کےلیے ضرر رساں ہو۔قصاص صرف قتل عمد میں واجب ہوتا ہے۔قتل خطا یا قتل عمد میں شبہ پیدا ہوجانے کی صورت میں دیت لاگو ہوتی ہے" قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ ﴾...البقرة "اے ارباب دانش!تمہارے لیے قصاص میں زندگی ہے" سورۃ البقرہ کی آیت نمبر178 میں قصاص کے حکم کو تفصیل کے ساتھ بیان فرمایا: ﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلَى﴾...البقرة "مسلمانو! جو لوگ تم میں قتل کئے جائیں ،ان کابرابر کابدلہ تم پر فرض ہے۔آزاد کے بدلے آزاد،غلام کے بدلے غلام،عورت کے بدلے عورت۔پھر جس خونی کو اس کے بھائی(مقتول کے وارث) کی طرف سے کچھ بھی معافی دی جائے تو معاف کرنے والا دستور کے مطابق(یعنی بغیر سختی کے) قاتل سے خون بہا وصول کرے اور قاتل اچھے طور سے وارث کو دیت ادا کردے۔یہ(عفو اوردیت کا) حکم تم پر تمہارے پروردگار کی طرف سے آسانی سے اور مہربانی ۔پھر جو کوئی زیادتی کرے(یعنی خونی کو مارڈالے یا زخمی کرے) تو اس کو دردناک عذاب ہوگا" قصاص کے متعلق مندرجہ بالا عمومی احکام کے بعد قصاص کی سزا کے نفاذ کے طریقہ کار کو قرآن وسنت کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کر تے ہیں ۔اس کے بعد ہمیں جاوید مغل کو دی جانے و الی سزا کی شرعی حیثیت کے متعلق کسی نتیجہ پر پہنچنے میں آسانی رہے گی۔ 2۔قرآن مجید میں سورۃ مائدہ کی آیت 33 موضوع زیر بحث کے متعلق خاصی اہم ہے: ﴿ إِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِينَ يُحَارِبُونَ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا أَن يُقَتَّلُوا أَوْ يُصَلَّبُوا أَوْ تُقَطَّعَ أَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُم مِّنْ خِلَافٍ أَوْ يُنفَوْا مِنَ الْأَرْضِ ۚ ذَٰلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيَا ۖ وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ ﴿33﴾...المائدة "جولوگ اللہ اور اس کے رسول( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے لڑتے ہیں اور زمین میں اس لیے تک ودود کرتے پھرتے ہیں کہ فساد برپا کریں ،ان کی سزایہ ہے کہ قتل کئے جائیں ،یا رسولی پرچڑھائے جائیں ،یا ان کے ہاتھ اور پاؤں مخالف سمتوں سے کاٹ ڈالے جائیں یا وہ جلاوطن کردیئے جائیں ۔یہ ذلت ورسوائی تو ان کے لیے دنیا میں ہے اور آخرت میں ان کے لیے اس سے بڑی سزا ہے۔"