کتاب: محدث شمارہ 242 - صفحہ 6
پھر سزا پر عمل درآمد کے طریقہ کار کو عدالت کے حکم کی نوعیت سے مشروط کردیا گیا ہے مگر سوال پیدا ہوتا ہے کہ عدالت ایسے معاملے میں حکم دینے میں کس حد تک آزاد ہے یا اس کی صوابدید کا دائرہ کار کیا ہے؟جیسا کہ عدالت حکم دے والے جملے سے یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ عدالت اپنی خواہشات نفس کے تابع جیسا چاہے حکم دے دے ہرگز نہیں ۔یہاں پھر ہمیں اس دفعہ کو338 ایف کی روشنی میں دیکھنا ہوگا۔عدالت کی اس صوابدید کی تعبیر بھی قرآن وسنت کی تعلیمات کی روشنی میں کی جائے گی۔یعنی عدالت صرف اسی طرح سزا پر عملدرآمد کاحکم دے سکتی ہے جس کی قرآن وسنت سے تائید ملتی ہو،اس سے ہٹ کر نہیں ۔
"جیسا کہ عدالت حکم دے"۔۔۔سے ایک اور نکتہ بھی پیدا ہوتاہے وہ یہ ہے کہ عام طور پر پاکستان میں قتل عمد کے مجرم کو پھانسی دے کر موت کے گھاٹ اُتارا جاتا ہے۔ اگر کوئی جج مجرم کو موت کی سزا دینے کے لیے پھانسی کے علاوہ کوئی اور طریقہ بیان کرے اور وہ قرآن وسنت سے متصادم نہ ہوتو "جیسا کہ عدالت حکم دے" کا جملہ ظاہر کرتا ہے۔ کہ جج کا وہ بیان کردہ طریقہ درست قرار پائے گا۔جاوید مغل کیس میں فاضل جج جناب اللہ بخش رانجھا نے اس صوابدید جملہ کے تحت سزا کے طریقہ کار کوغیر روایتی مگر شرعی حدود میں رہتے ہوئے بیان کیا ہے تو پھر بطور جج کے وہ اس کا اختیار رکھتے تھے۔ان کا فیصلہ اس اعتبار سے پاکستان کے مروجہ قانون کی حدود کے بھی اندر ہے،اس سے متجاوز نہیں جیسا کہ بعض حضرات کا خیال ہے ۔
شریعت اسلامیہ کی روشنی میں !
سو بچوں کا قتل ایک ہولناک ،غیر معمولی اور عدیم النظر واقعہ تھا،اس کےمجرم کو موت کی سزا دینے کے لیے اگر فاضل جج نے غیر معمولی طریقہ کار بیان کیا ہے تو اس پر اعتراض نہیں کیا جانا چاہیے۔خود ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین رضوان اللہ عنہم اجمعین کے دور میں اس طرح کی غیر معمولی سزاؤں کا دیا جانا حدیث کی کتب میں مذکور ہے۔راقم کی اس وضاحت کے بعدکلائیو نے وہ سوال کیا جو مغرب کا عام فرد کرتا ہے:"کیا یہ سزا بربریت پر مبنی نہیں ہے؟"
ہرگز نہیں ،عظیم پیمانے کی بربریت کے خاتمے کے لیے اور انسانیت کو متوقع بربریت سے بچانے کے لیے ایک فرد واحد،سفاک قاتل کے ساتھ ایسا برتاؤہرگز وحشیانہ قرار نہیں دیاجاسکتا۔یہ فیصلہ اسلامی شریعت ،تعزیرات پاکستان اور انسانی معاشرے کے تحفظ کے تقاضوں اور روح کے عین مطابق ہے ،راقم نے جواباً کہا۔
مندرجہ بالا سطور میں برطانوی وفد سےگفتگو کا خلاصہ پیش کیا گیا ہے نہایت افسوس کامقام ہے کہ اہل مغرب تو سو بچوں کے قتل کے کیس کے بارے میں تحقیق کرنےکے لیے پاکستان پہنچ گئے ہیں ۔ان کے دورے پر لاکھوں روپے کے اخراجات اٹھیں گے ،مگر ہمارے ہاں اس واقعے کی سنگینی کے تناسب میں دلچسپی کا اظہار نہیں کیا گیا۔شروع شروع میں احتجاجی بیانات اخبارات شائع ہوتے رہے، مگر اس واقعے کے اسباب وعوامل کا کھوج لگانے کے لیے نہ تو کسی ادارے نے ریسرچ کا اہتمام کیا ہے۔اور نہ علماء نے اس فیصلے کی شرعی حیثیت کے متعلق عوام الناس کی راہنمائی کے لیے اب تک علمی انداز میں روشنی ڈالی ہے۔اسلامی نظریاتی کونسل کے ایک ڈائریکٹر یا رکن کا بیان اخبارات میں چھپا تھا،جس میں انہوں نے کہا: یہ مذکورہ فیصلہ شریعت کی رو سے درست نہیں ہے۔اس مختصر فتویٰ نما بیان میں ان دلائل کا تفصیلی ذکر نہیں تھا جن کی بنیاد پر انہوں نے یہ رائے قائم کی۔یہ کیس گہری تحقیق کامتقاضی ہے۔درج ذیل سطور میں قرآن وسنت کی روشنی میں اس فیصلہ کاجائزہ لینے کی کاوش کی گئی ہے: