کتاب: محدث شمارہ 242 - صفحہ 5
"قصاص سے مراد ایسی سزا ہے کہ جومجرم کو جسم کے اسی حصہ پرویسے ہی ضرب لگانے سے دی جائے جیسے کہ اس نے Victim(شکار) پر لگائی تھی۔یامقتول(Victim) یا اس کے دلی کی حق رسی کی خاطر قاتل کو قتل عمد کے نتیجے میں ایسی سزا دی جائے جو اس کی موت پر منتج ہو" 2۔تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302 درج ذیل ہے: "جو کوئی بھی قتل عمد کاارتکاب کرتا ہے،اس باب کی دیگر شقات سے مشروط،اسے: الف۔قصاص کے طور پر موت کی سزا دی جائے گی۔ ب۔اگر دفعہ 302 میں مخصوص کردہ ثبوت کی کوئی بھی شکل میسر نہ ہو،تو مقدمہ کے حقائق اور حالات کا لحاظ رکھتے ہوئے اسے تعزیر کے طور پر عمر قید اس طرح دی جائےگی تاوقت یہ کہ اس کی موت وقع ہوجائے۔ ج۔اسے کسی بھی مدت کے لئے سزا دی جائے گی جو 25 سال تک قابل توسیع ہو۔ایسی صورت میں جہاں اسلامی احکام کی رو سے قصاص کی سزا قابل اطلاق نہ ہو۔" 3۔تعزیرات پاکستان کی دفعہ 314 کی ذیلی شق نمبر 1 کے الفاظ یہ ہیں : “1.Qisas in ‘Qatl.i.amd ‘ shall be executed by a functionary of the Government by causing death of the convict as the court may direct.” "قتل عمد میں قصاص پر عمل درآمد حکومت کے ایک اہلکار کی طرف سے کیاجائے گا ،مجرم کی موت واقع کرنے کی صورت میں ،جیسا کہ عدالت حکم صادر کرے" 4۔تعزیرات پاکستان کی دفعہ 338 کی زیلی شق 338 ایف میں مذکورہ باب کی دفعات یاتعبیر کے متعلق یہ ہدایت درج ہے: " اس باب کے شقات کی تعبیر واطلاق یامتفرق معاملات کے ضمن میں ،عدالت اسلامی احکام کو ہی راہنما بنائےگی،جیسا کہ قرآن وسنت میں انہیں بیان کیاگیا ہے" تعزیرات پاکستان کی محولہ دفعات کی روشنی میں جو مجموعی صورتحال سامنے آتی ہے،اس کے اہم نکات کاخلاصہ یہ ہے: 1۔قصاص کی تعریف کودو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے،پہلے حصہ میں توواضح طور پرتعین کردیاگیا ہےکہ مجرم کو اسی انداز میں جسم کے اسی حصہ پر ضرب پہنچائی جائے جس طرح کہ اس نے مضروب کو پہنچائی تھی۔البتہ دوسے حصہ میں قتل عمد کی صورت میں مجرم کو ایسی سزا دینے کا ذکر ہے جو اسکی موت پر منتج ہو(Causing death) اس تعریف میں موت کی سزا دینے کا ذکر ہے۔یہ سزا کس طرح دی جائے گی،اس کے بارے میں کوئی وضاحت موجود نہیں ہے۔ قانون سازوں نے غالباً اس پہلو کو کسی مصلحت کے تحت محدود نہیں کیا بلکہOpen رکھا ہے۔کیونکہ حدیث میں مختلف مجرموں کے خلاف قصاص کے عمل درآمد کی صورت میں مختلف طریقے بیان کئے گئے ہیں ۔اس تعریف کی رو سے یہ حکم نہیں لگایا جاسکتا کہ قتل عمد کی سزا پر عمل درآمد صرف اور صرف پھانسی کی صورت میں کیا جانا چاہیے۔قصاص کی اس تعریف کو دفعہ 338۔ایف کے ساتھ ملا کر پڑھاجائے تو اس کا مطلب یہی نکلتا ہے کہ مجرم کوموت کی سزا دینے کے لیے بھی وہی طریقہ ا پنایا جائے جو قرآن وسنت کی رو سے درست ہے۔ 2۔قصاص پر عملدرآمد کے سلسلہ میں دفعہ 314 کی ذیلی شق نہایت اہم ہے۔اس میں جہاں یہ ذکر کیا گیا ہے کہ قصاص پر عملدرآمد سرکاری حکام ہی کے ذریعے کیا جائےگا،وہاں اس کے طریقہ کار کے متعلق راہنما اصول دے دیاگیا ہے،وضاحت نہیں کی گئی۔وہ راہنما اصول یہ ہے کہ"جیسا کہ عدالت حکم دے"یہاں ایک دفعہ