کتاب: محدث شمارہ 242 - صفحہ 46
غیر مقلد کے نام سے یاد کرتے ہیں اور مفتی صاحب نے کسی سے سن سنا کر ڈیڑھ سو سال سے اہلحدیث کے وجود کی لاف تومار دی ہے لیکن اس پر کوئی ٹھوس دلیل پیش کرنے کی زحمت نہیں کی اور یہ مفتی صاحب کی مجبوری ہے کیونکہ وہ مقلد ہیں اور مقلد لکیر کافقیر ہوتا ہے جسے کوئی بات نوک قلم پر لانے سے پہلے تحقیق کی تکلیف نہیں دی جاسکتی کیونکہ تقلید کی تعریف ہی یہ کی جاتی ہے۔
"التقليد العمل بقول الغير من غير حجة"(مسلم الثبوت ص289)
یعنی" دلیل کے بغیر ہی غیروں کی بات پر عمل کرنا تقلید کہلاتا ہے۔
قدامت اہلحدیث:غور و فکر سے کام لینے والا ہر شخص جانتاہے کہ قرآن کریم اور حدیث نبوی پر عمل کرنے والے کو اہلحدیث کہا جا تا ہے لہٰذاجب سے قرآن و حدیث ہیں تب سے اہلحدیث بھی چلے آرہے ہیں مفتی صاحب کے بقول اگر ان کا وجود ڈیڑھ سو سال سے ہو تو اس سے قبل کی تصنیفات میں ان کا نام و نشان نہیں ملنا چاہئے جبکہ اس سے پہلے ہر دور کے علماء کرام نے اپنی اپنی تصنیفات میں اہلحدیث کا ذکرخیر کیا ہےجسے اختصارکے ساتھ نقل کیا جا تا ہے۔
٭ شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ (متوفی1176ھ)نے(حجةالبالغة میں باب الفرق بين اهل الحديث واصحاب الراي)
کے تحت تحریر فرمایاہے:
"فوقع تدوين الحديث والفقه والمسائل من حاجتهم بموقع من وجه آخر، وذلك أنه لم يكن عندهم من الأحاديث والآثار ما يقدرون به على استنباط الفقه على الأصول التي اختارها أهل الحديث"(حجۃ اللّٰه البالغہ ج1 ص 152 المکتبۃ السلفیۃ لاہور)
یعنی "حدیث وقفہ اور مسائل کودوسرے طرز پر مدون کرنے کی ضرورت پیش آئی اور یہ اس لیے کہ ان کے پس اتنی احادیث اور آثار نہیں تھے جن سے اہلحدیث کے اختیار کردہ اصول کے موافق استنباط فقہ پر قدر ہوتے"
٭ اس سے قبل حافظ ابن حجر (متوفی 852ھ)ایک حدیث کا حکم بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں ۔"وقد صححه بعض اهل الحديث"
(فتح الباری شرح صحیح بخاری ج2ص220)
یعنی"اس حدیث کو اہل حدیث نے صحیح کہا ہے۔
٭ اور اس سے قبل امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ (متوفی751ھ) اپنی تصنیفات میں کثرت سے اہل حدیث کا ذکر کرتے ہیں ایک مقام پر قنوت نازلہ سے متعلق حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی حدیث نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں ۔
" وهذا رد على أهل الكوفة الذين يكرهون القنوت في الفجر مطلقاً عند النوازل وغيرها، ويقولون هو منسوخ وفعله بدعة، فأهل الحديث متوسطون