کتاب: محدث شمارہ 242 - صفحہ 43
اور اتباع ہوتی ہے اور تقلید اُمتیوں کی ہوتی ہے۔حنفیوں کی معتبر کتاب مسلم الثبوت (صفحہ 289) میں ہے۔
الرجوع إلى النبي عليه الصلوة والسلام أو إلى الإجماع ليس منه
"نبی صلی اللہ علیہ وسلم یا اجماع کی طرف رجوع کرنا تقلید میں داخل نہیں ہے۔"
دوسرے لفظوں میں یوں سمجھیں کہ تقلید خود ساختہ اماموں کی ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے امام حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تقلید نہیں ہوتی بلکہ ان کی اتباع و اطاعت ہوتی ہے اور اتباع و اطاعت سے اُمت میں اتحاد برقرار رہتا ہے۔جبکہ تقلید اس کے برعکس امت کو فرقوں میں بانٹ دیتی ہے۔اور مسلمانوں کی قوت کو کمزور کر دیتی ہے حنفیوں نے اپنا امام بنایا تو دوسرے مقلدوں نے اس کے مقابلے میں اپنے علیحدہ امام بنالئے۔اور سب مقلد اپنے اپنے امام تقلید کرنے میں جت گئے اور اس طرح ایک دین کو چار دین بنادیا گیا اور یوں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دیا ہوا دین کھلونا بن کر رہ گیا اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسلام اور مسلمانوں میں تفرقہ پڑگیا جو ختم ہونے میں نہیں آتا ۔اللہ تعالیٰ نے تفرقہ بازی سے بچانے کے لیے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو امام بنایا تھا اور انہی کی اتباع کا حکم دیا تھا تاکہ مسلمانوں میں مختلف فرقے پیدا نہ ہوں ۔لیکن مقلدین نے خود ساختہ اماموں کی تقلید اختیار کر کے دین الٰہی کا وہ حلیہ بگاڑاجس کی مثال نہیں ملتی اور اس جرم کا سب سے پہلا مرتکب حنفی مقلد ہے جس نے اس تفرقہ بازی کی بنیاد رکھی ہے۔لہٰذا قیامت کے دن جب اُمت واحدہ کو پارہ پارہ کرنے والے لوگ اللہ تعالیٰ کی عدالت میں پیش کئے جائیں گے تو حنفی مقلد ان سب سے آگے ہوں گے۔کیونکہ انہوں نے سب سے پہلے اس بھیڑ چال کی بنیاد رکھی ہے اس کے بعد تو چل سوچل ۔ جبکہ اللہ تعالیٰ کے ہاں تفرقہ بازی کا فعل اس قدر ناپسندیدہ ہے کہ جب بھی کوئی نبی اور رسول معبوث ہوا اسے خاص طور پر یہ وصیت کی گئی کہ لوگوں کو فرقوں میں نہ بٹنے دینا ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
﴿ شَرَعَ لَكُمْ مِنَ الدِّينِ مَا وَصَّىٰ بِهِ نُوحًا وَالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِهِ إِبْرَاهِيمَ وَمُوسَىٰ وَعِيسَىٰ ۖ أَنْ أَقِيمُوا الدِّينَ وَلَا تَتَفَرَّقُوا فِيهِ﴾(الشوریٰ13)
"اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے وہی شریعت مقرر کردی ہے جس کے قائم کرنے کا اس نے نوح کو حکم دیا تھا اور جو بذریعہ وحی ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بھیج دی ہے اور جس کا تاکیدی حکم ہم نے ابراہیم علیہ السلام موسیٰ علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام کو دیا تھا کہ اس دین کو قائم رکھنا اور اس میں پھوٹ نہ ڈالنا "
بتائیے اس آیت کریمہ میں ذکر ہونے والے دین سے کیا مراد ہے؟ اگر حنفی مقلد کہیں کہ اس سے مراد حنفی مذہب ہے تو شافعی کہیں گے اس سے شافعی مذہب مراد ہے۔ حالانکہ دونوں میں بعد المشرقین ہے اگر یقین نہ آئے تو دونوں مذاہب کی مذہبی کتابیں سامنے رکھ کر موازنہ کر لیں ۔شافعی فاتحہ خلف الامام کو فرض کہتے ہیں اور حنفی مقلد اس کے ازلی مخالف ہیں ۔وہ نماز میں مواضع ثلاثہ کی رفع یدین