کتاب: محدث شمارہ 242 - صفحہ 41
صاحب کی چند نگارشات "غیرمقلدوں کا حال اور ان سے ضروری سوال "کے عنوان سے شائع کی گئی ہیں ۔جس میں مقلدوں کی آڑ میں اہل حدیث کو جاہل طبقہ قرار دینے کی سعی فرمائی گئی ہے اور انہیں باہمی افتراق و انتشار کا ذمہ دار بنانے کوشش کی گئی ہے حالانکہ علم و دانش سے ادنیٰ مناسبت رکھنے والے لوگ بھی جانتے ہیں کہ امت مسلمہ میں اختلاف و انتشار کا آغاز اس وقت ہوا ہے جب اتباع واطاعت کو چھوڑکر اس کی جگہ تقلید شخصی کو اختیار کیا گیا اور اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے امام صلی اللہ علیہ وسلم کو پیچھے چھوڑ کر اپنے بنائےہوئے اماموں کے نام پر مختلف مذاہب کی بنیاد رکھی گئی۔ اس اجمال کی تفصیل تو ہم بعد میں ذکر کریں گے۔لیکن پہلے ماہنامہ الفاروق کے اس مضمون نگار کی تحریر کا اقتباس ملا حظہ فرمالیں جو مقلد ہونے کے باوجود مفتی کہلاتے ہیں ۔وہ تقلید سے اپنے عشق و محبت کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں ۔
"صدیوں سے چاروں اماموں کے مقلدین چلے آرہے ہیں اور دنیا میں موجود ہیں ۔یہ حضرات کتب حدیث کے راوی بھی تھے اور شارح بھی تھے تقریباً ڈیڑھ سو سال سے ایک فرقہ نکلاہے۔جس نے ان چاروں اماموں سے علیحدہ اپنی جماعت بنائی ہے۔"(مئی ،جون 2000ءصفحہ 18)
مفتی صاحب آج کل مدینہ منورہ میں رہائش پذیر ہیں مگر افسوس کہ وہاں رہ کر بھی انہیں ﴿ أَطِيعُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ﴾کا مفہوم نہیں سمجھ آسکا اور وہ روضہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیٹھ کر بھی امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی طاعت کی بجائے اپنے بنائے ہوئے اماموں کی تقلید پر ہی جمے ہوئے ہیں جبکہ یہ تقلید فساد کی جڑ ہے اور اس کے اثرات و نتائج امت کے لیے تباہ کن ثابت ہوئے ہیں ۔
کیاامت میں افتراق و انتشار کی وجہ عدم تقلید ہے؟:
ہر چیز کو اس کے اثرات سے ہی جاناجاتا ہے اور اس کے رد وقبول کا انحصار اس چیز سے حاصل ہونے والے نتایج پر ہوتا ہے۔ اگر کسی چیز سے حاصل ہونے والے نتائج اچھے ہوں تو انسان فطری طور پر اس کی طرف مائل ہوتا ہے اور بغیر کسی کی انگیخت کے اسے قبول کرنے کے لیے آمادہ ہوتا ہے جیسا کہ کتاب و سنت کے نام سے ہی انسان دلی طور پر فرحت اور سکون محسوس کرتا ہے۔اور اگر کوئی چیز نتائج کے اعتبارسے بری ہو اور اس کے اثرات لوگوں کے لیے نقصان دہ ثابت ہوں تو فطرت انسانی ایسی چیز سے نفرت کرتی اور اسے قبول کرنے سے اباء کرتی ہے جیسا کہ تقلید ناسدیدکے نام سے ہی انسان نفرت کا اظہار کرتا ہے کیونکہ اس تقلید نے امت مسلمہ کو سوائے افتراق اور انتشار کے کچھ نہیں دیا ۔ اور تاریخ شاہد ہے کہ اسلام میں اس تقلید کی درآمد سے قبل مسلمانوں کی جنگیں کفار سے ہوتی تھیں اور آپس میں سب مسلمان اُخوف و مودت جیسی بلند صفات سے متصف ہوکر جسد واحد بن کر پر سکون زندگی گزارتے تھے اور باہمی اتحاد واتفاق کی بنا پر﴿ أَشِدّاءُ عَلَى الكُفّارِ رُحَماءُ بَينَهُم﴾سنہری منظر پیش کرتے تھے لیکن ستیاناس ہو اس تقلید کا جس نے مسلمانوں کو آپس میں لڑانا شروع کیا۔جب سے یہ اسلام میں گھس آئی