کتاب: محدث شمارہ 242 - صفحہ 3
وہی انسانی حقوق پسندیدہ اور لائق اعتبار ہیں جن کی تائید قرآن وسنت سے ملتی ہو۔مغرب کے انسانی حقوق کا کوئی واضح سرچشمہ نہیں ہے۔مغربی فلاسفرز کبھی تو انسانی فطرت کو انسانی حقوق کا سرچشمہ قرار دیتے ہیں کبھی انسانی احتیاجات کی مبہم ترکیب استعمال کرتے ہیں ۔مغرب میں انسانی حقوق کو مستقل قدر کا درجہ حاصل نہیں ہے۔انسانی عقل مختلف ادوار میں بعض حقوق کو قابل ترجیح قرا ر دے کر ان کی حیثیت کا نئے سرے سے تعین کرتی رہتی ہے۔" اسلام میں جرم وسزا کے فلسفہ پر روشنی ڈالتے ہوئے راقم الحروف نے بیان کیا کہ: "اسلام میں کبھی مجرم کوسزادینے کے بنیادی طور پر تین مقاصد ہیں :اولاً: یہ کہ عدل وانصاف کے تقاضے پورے کرنا ،ثانیا:مجرم کو اس کے جرم کی سزا دینا اور ثالثاً ،یہ کہ مستقل میں ایسے جرائم کے ممکنہ ارتکاب کی حوصلہ شکنی کرنا اور سزا کو دوسروں کے لیے عبرت کا نشان بنانا۔ جاوید مغل کو دی جانے والی سزا کاتعلق تیسری صورت یہ ہے۔چونکہ یہ ایک غیر معمولی اور عدیم النظیر جرم تھا،لہذا اس کے لیے غیر معمولی سزا سنائی گئی جو کہ کسی بھی اعتبار سے وحشیانہ نہیں ہے۔یہ سزااسلام کے جرم وسزا کے فلسفہ اور شرعی قوانین کی روح کے عین مطابق ہے۔اسلام کے قانون قصاص کامطالعہ کیا جائے تو یہ سزاقرآن وسنت کے تقاضوں سے ہم آہنگ نظر آتی ہے۔" مسٹر کلائیو نے کہا کہ ہمارے پیش نظر اس سوال کاجواب ڈھونڈنا ہے کہ جاوید مغل کو دی جانے والی سزا کیا اسلامی شریعت کے عین مطابق ہے؟اگر اس سوال کا جواب ہاں میں ہے۔تو ضمنی سوال یہ پیدا ہوتاہے ۔کہ شرعی قوانین اور پاکستان پینل کوڈ کی دفعات کے درمیان مطابقت کس طرح پیدا کی جاسکتی ہے؟ دوران گفتگو مسٹر کلائیو نے یہ بتا کر حیران کردیا کہ برطانیہ میں رائے عامہ کے ایک طبقہ نے جاوید مغل کو دی جانے والی سزا پر پسندیدگی کا اظہار کیااور مطالبہ کیا کہ برطانیہ معصوم بچوں کے قاتلوں کو بھی ویسی ہی سزا دی جائے۔ راقم الحروف نے بتایا کہ سو بچوں کے شقی القلب قاتل جاوید مغل کو جوسزا دی گئی ہے۔اس کا بنیادی مقصد ایسے بہیمانہ جرائم سے انسانیت کو بچاناہے۔جاوید مغل کو ایک مرتبہ پھانسی دے کر دفن کردیا جائے یا اسے سو مرتبہ پھانسی دے کر اس کے ٹکڑے کرکے تیزاب میں ڈالا جائے، ا س کے لیے دونوں باتیں برابر ہیں کیونکہ موت کے بعد انسانی جسم کو سزا کااحساس نہیں رہتا۔البتہ موخر الذکر صورت میں دیکھنے والی آنکھوں کے لیے عبرت اور خوف پیدا ہوگا۔اس طرح کی سزا کے خوف سے کوئی بھی آئندہ ایسے جرائم کا ارتکاب کرنے کی جرائت نہیں کرے گا۔یہ طریقہ کسی بھی اعتبار سے وحشیانہ قرار نہیں دیاجاسکتا۔ایک غیر معمولی اور عدیم النظیر جرم کے لیے عدیم النظیر اور عبرت ناک سزا کا دیا جانا بربریت کے زمرے میں نہیں آتا۔جج صاحب کے نزدیک محض جاوید مغل کو سزا دینا نہیں تھا۔ ان کے پیش نظر ان سینکڑوں ماؤں اور خاندانوں کی تالیف وقلب کرنا بھی تھا جن کے معصوم بچوں کو اس وحشی درندے نے ظالمانہ طریقے سے قتل کردیاتھا۔پاکستانی عوام کایہ دیرنہ مطالبہ تھا کہ جاویدمغل کو عبرتناک سزا دی جائے۔ مسٹر کلائیو نے کہا کہ مسڑ اللہ بخش رانجھا ایک رحم دل انسان ہیں ۔انہوں نے ضرور اس پہلو کو بھی پیش نظر رکھا ہوگا۔راقم الحروف نے انہیں بتایا کہ ہم اس سزا کو اسلامی شریعت کے قصاص کے قانون کی روح کے عین مطابق سمجھتے ہیں ۔ حافظ عبدالرحمان مدنی ،جو ایک معروف عالم دین ہونے کے ساتھ ساتھ اسلامک لاء کے نامور ماہر بھی سمجھے جاتے ہیں اور عرصہ سے حکومتی اداروں میں اعلیٰ عدلیہ کو مختلف آرڈیننسز اور اصول فقہ کی تعلیم دے رہے ہیں ،نے