کتاب: محدث شمارہ 242 - صفحہ 28
فَلْيَدْفَعْ في نحرهُ وليدرأما استطاع(وفي رواية فليمعه مرتين) ، فَإِنْ أَبَى فَلْيُقَاتِلْهُ ، فَإِنَّمَا هُوَ شَيْطَانٌ ."
"جب تم میں سے کوئی کسی چیز کو لوگوں سے سترہ بنا کر اس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھ رہا ہواورکوئی اس کے آگے سے گزرناچاہے تو اس کے سینہ پر دھکادے اور حتیٰ الامکان اسے ہٹائے(اور ایک روایت میں ہے کہ اسے دوبارروکے )اگر نہ رکےتو اس سے لڑےکیونکہ وہ شیطان ہے"
کسی کو گزرنے سے منع کرنے کے لیے آگے کو چلنا:
26۔غیر مکلف چیزوں مثلاًجانور اور چھوٹے بچے وغیرہ کو اپنے سامنے سے گزرنے سے منع کرنے کی خاطر نمازی کے لیے ایک یا اس سے زیادہ قدم آگے کو چلنا جائز ہے تاکہ وہ نمازی کے پیچھے سے گزرے۔
نماز کو توڑنے والی چیزیں :
27۔نماز کیں سترہ کا فائدہ یہ ہے کہ وہ اپنی طرف متوجہ ہو کر نماز پڑھنے والے اور اس کے سامنے سے گزرکر نماز کو فاسد کرنے کے درمیان حائل ہو جاتا ہے۔بخلاف اس شخص کے جو سترہ نہیں رکھتا جب اس کے سامنے سے بالغ عورت گدھا یا سیاہ کتا گزرجائے تو اس کی نماز ٹوٹ جاتی ہے۔
مسئلہ نیت:
28۔نمازی کے لیے ضروری ہے کہ وہ جس نماز کے لیے کھڑا ہو وہ دل میں اس کی نیت اور تعین کرےمثلاً یہ کہ نماز ظہر کے فرض ہیں یا عصر کے یا ان کی سنتیں ہیں ۔
نیت کرنا نماز کے لیے یا تو شرط ہے یا رکن۔زبان سے نماز کی نیت کے الفاظ ادا کرنا بدعت اور خلاف سنت ہے اور ان مقلد ین کے آئمہ میں سے کسی بھی امام نے یہ نہیں کہا۔
تکبیر:
29۔پھر اللہ اکبر، کہہ کر نماز شروع کرے ۔یہ تکبیر نماز کارکن ہے اس کی دلیل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ فرمان مبارک ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"مِفْتَاحُ الصَّلاةِ الطُّهُورُ ، وَتَحْرِيمُهَا التَّكْبِيرُ ، وَتَحْلِيلُهَا التَّسْلِيمُ"
"وضو نماز کی چابی ہے تکبیر نماز میں داخل کرنے والی اور سلام نماز سے خارج کرنے والاہے۔"
30۔کسی بھی نماز میں تکبیر بلند آواز سے نہ کہے الایہ کہ نمازی خود امام ہو۔
31۔امام بیمارہو۔ اس کی آواز پست ہو یا نمازیوں کی تعداد زیادہ ہو تو اس قسم کی صورتوں میں مؤذن کے لیے امام کی تکبیر کے ساتھ بآواز بلند تکبیرکہہ کر لوگوں کو سنانا جائز ہے۔