کتاب: محدث شمارہ 242 - صفحہ 20
عورتوں کے دین کے معاملہ میں نہ رشتہ داری کا خیال کریں اور نہ عہد کا؟
اس سے یہ بھی معلوم ہو تا ہے کہ اسلامی رواداری سے یہ بھی ہے کہ مرد کو اپنی بیوی کے عقیدہ کا احترام کرنا چاہئے تاکہ دونوں کے درمیان بہتر تعلقات بحال رہیں خیر خواہی کے نقطہ نظر سے اسے مناسب ماحول میں اپنی بیوی کو حق کی دعوت دیتے رہنا چاہئے لیکن یہ نہ چڑ پیدا کرے نہ اس میں جبرکا شائبہ ہو۔ جہاں تک مسلمان کے عقیدہ کا تعلق ہے وہ یہودیت و نصرانیت کو ان کی اصل کے اعتبار سے ان کی تحریفات کو قطع نظر کرتے ہوئے آسمانی مذہب خیال کرتا ہے وہ تورات و انجیل پر ایمان رکھتا ہے اور حضرت موسی علیہ السلام وعیسیٰ علیہ السلام جیسے اولوالعزم رسولوں کو بھی مانتا ہے اس لیے کسی کتابی عورت کے لیے ایسے مرد کے ساتھ زندگی گزارنا مشکل نہیں ہے جو اس کے اصل دین اس کی کتاب اور اس کے نبی کا احترام کرتا ہو اور صرف احترام ہی نہیں بلکہ ان باتوں کو مانے بغیر اس کا ایمان ہی صحیح نہ قرار پاتاہو اس کے برخلاف یہودی اور نصرانی اسلام کا ادنیٰ اعتراف نہیں کرتے ۔ نہ اسلام کی کتاب کا نہ اس کے رسول کا۔ لہٰذا یہ کس طرح ممکن ہے کہ ایک مسلمان عورت اس قسم کا عقیدہ رکھنے والے مرد کے زیر سایہ زندگی گزارے ؟ جبکہ مسلمان عورت کا دین اس سے شعائر و عبادات فرائض و واجبات کا مطالبہ کرتا ہے اور کتنی چیزوں کو حلال اور حرام قرار دیتا ہے ایسی صورت میں مسلمان عورت کے لیے اپنے عقیدہ اور اپنےدین کا تحفظ کرنا جبکہ مرد قوم ہو کر اس کا پوری طرح منکر ہو ایک امرمحال ہے۔
یہ بات بھی ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ غیر مسلم چاہے وہ کتابی ہو یا غیر کتابی کبھی بھی مسلمان کا دلی طور پر خیر خواہ نہیں ہو سکتا ۔اور اس بات کو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بھی واضح کیا ہے۔﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا بِطَانَةً مِّن دُونِكُمْ لَا يَأْلُونَكُمْ خَبَالًا118﴾...آل عمران
"اے ایمان والو! اپنے سوا کسی غیر مسلم کو اپنا راز دار نہ بناؤ ۔وہ تمہاری خرابی کے لیے کوئی کسر نہیں اٹھارکھتے "(آل عمران:118)
یعنی وہ کبھی مسلمان کے خیر خواہ نہیں ہو سکتے ۔ زبان سے بے شک خیر خواہی کے لاکھ دعوے کرتے رہیں جبکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نےبارہا صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کو اس بات سے (خالفوا اليهود والنصارى)کے الفاظ سے متنبہ کیا۔ اس کی مثال بھی مجھے اسی دوست کی زبانی معلوم ہوئی۔ وہ کہنے لگا کہ میرا ایک جاننے والا مجھے اکثر کہتا ہے کہ اگر تم لندن جانا چاہتے ہو تو میں تمھارا مفت جانے کابندوبست کردوں گا۔ نہ کوئی ویزہ کا خرچہ اور نہ ٹکٹ وغیرہ میں نے کہا:نہیں مگر وہ باصرار مجھے جانے کے لیے کہتا رہا۔میں نے اس سے پوچھا کہ بتاؤ تم مجھے کیوں مفت میں لے جانا چاہتے ہو جبکہ لوگ اس کام کے لیے ہزاروں روپے خرچ کرتے ہیں اور کئی جائز و ناجائز طریقے اپناتے ہیں تو اس نے جواب دیا کہ تم میرے دوست ہو تمہیں بتا دیتا ہوں وگرنہ میں نے یہ بات کبھی کسی کو بتائی نہیں ۔وہاں عیسائی امراء ان مسلمانوں کو اپنے خرچہ پر بلاتے ہیں جانے پر ان کو ان عیسائیوں کے گھر میں خاکروب کے طور پر معمولی تنخوا ہوں پر رکھا جا تا ہے۔