کتاب: محدث شمارہ 242 - صفحہ 18
بشرطیکہ اس سے تمہاری غرض مہر ادا کر کے نکاح میں لانا ہو محض شہوت رانی اور پوشیدہ آشنائی نہ ہو۔ اور جس نے بھی ایمان کے بجائے کفر اختیار کیا اس کا وہ عمل بر باد ہو گیا اور آخرت میں وہ نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو گا "(المائدہ:5)
اسلامی روا داری کی یہ ایک نادر مثال ہے جو دوسرے مذاہب میں نہیں مل سکتی ۔ اسلام نے اہل کتاب کو کافر اور گمراہ قرارد ینے کے باوجود مسلمان کے لیے جائز کر دیا ہے کہ کتابیہ اس کی بیوی اور اس کے گھر کی مالکہ ہو جس سے وہ سکون حاصل کرسکتا ہے جو اس کی راز دان بن سکتی ہے جو اس کی اولاد کی ماں بن سکتی ہے جبکہ زوجیت کے تعلق کے بارے میں قرآن مجید میں ارشاد ہوا ہے ۔
﴿ وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُم مِّنْ أَنفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُم مَّوَدَّةً وَرَحْمَةً﴾...الروم
"اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہاری جنس سے بیویا ں پیدا کیں ۔تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو اور تمہارے درمیان مودت و رحمت پیدا کی"
یہاں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ اسلام نے اہل کتاب عورتوں سے نکاح کی اجازت دی ہے مگر یہ اجازت بھی کچھ شرائط کے ساتھ مخصوص ہے اور ان شرائط کا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔وگرنہ رخصت کا بھی کوئی جواز نہیں ۔جس طرح اسلام نے مرد کو چار شادیوں تک کی جازت دی ہے مگر ساتھ انصاف کی شرط ہے۔ اگر انصاف نہ ہوتو ایک کے بعد دوسری کی بھئ اجازت نہیں ہے چارتو بعد کی بات ہے۔ کتابیہ عورتوں سے نکاح کی شرائط وہی ہیں جو مسلمان عورتوں کے لیے ہیں یعنی نکاح کا مقصد محض شہوت رانی نہ ہو بلکہ مستقل بنیادوں پر ہو اور اس نکاح کا باقاعدہ اعلان ہوا ان کے حق مہر انہیں اداکئے جائیں ۔
1۔پہلی شرط یہ ہے کہوہ کتابیہ عورت وَالْمُحْصَنَاتُ(پاکباز عورتوں ) میں سے ہو۔ اور محصنات سے مراد عفت مآب اور بدکاری سے بچنے والیاں ہے جیسا کہ سورہ النساء آیت نمبر25 میں محصنات کے ساتھ ہی ﴿ غَيْرَ مُسَفِحَتٍ وَلاَ مُتَّخِذَاتِ أَخْدَانٍ﴾کے الفاظ آئے ہیں ۔
اس حکم کی تفصیلات میں فقہاء کے درمیان اختلاف واقع ہو ہے۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا خیال ہے کہ یہاں اہل کتاب سے مراد وہ اہل کتاب ہیں جو اسلامی حکومت کی رعایا ہوں ۔رہے دارالحرب اوردار کفر کے یہود ونصاریٰ تو ان کی عورتوں سے نکاح کرنا درست نہیں ہے حنفیہ اس سے تھوڑا سااختلاف کرتے ہیں ان کے نزدیک بیرونی ممالک کی اہل کتاب عورتوں سے نکاح کرنا حرام تو نہیں مکروہ ضرورہے۔بخلاف اس کے سعید بن مسیب اور حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ اس کے قائل ہیں کہ آیت اپنے حکم میں عام ہے لہٰذا ذمی اور غیر ذمی میں فرق کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
پھر محصنات کے مفہوم میں بھی فقہاء کے درمیان اختلاف ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نزدیک اس سے مراد پاک دامن عصمت مآب عورتیں ہیں اور اس بناپر وہ اہل کتاب کی آزاد منش عورتوں کو اس اجازت سے خارج قراردیتے ہیں یہی رائے حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ شعبی رحمۃ اللہ علیہ اور براہیم نخعی رحمۃ اللہ علیہ کی ہے ۔اور حنفیہ نے بھی اسی کو پسند کیا۔