کتاب: محدث شمارہ 242 - صفحہ 16
عبرت کا نمونہ بنانے ان کی لاش کو سولی پر لٹکاکر یونہی چھوڑ دینے کو روا سمجھتا ہے تو پھر یہ تو بتلائیےاگر آج ایک ایڈیشل سیشن جج اللہ بخش رانجھا صاحب نے سو بچوں کے وحشی قاتل جاوید مغل کو دو سو مرتبہ پھانسی دینے کے بعد اس کی لاش کے سو ٹکڑے کر کے تیزاب کے ڈرم میں ڈالنے کی سزا سنائی ہے تو پھر اس پر طوفان کیوں کھڑا کیا جا رہا ہے اور اسے غیر شرعی کیسے فرار دیا جا سکتا ہے؟ جبکہ اس کا مقصد دیگر لوگوں کے لیے غیرت کا ساماں پیدا کرنا ہے اگرمثلہ سے کم کے معاملے میں بقول جصاص رحمۃ اللہ علیہ فقہا میں اتفاق رائے ہے تو پھر سولی پر لٹکا کر چھوڑ دینے کا معاملہ کیا منافی ہے ؟مگر اس کی تو بعض فقہا حمایت کرتے ہیں مگر جاوید مغل جیسے قاتلوں کی سزا پر اعتراض وارد کرتے ہیں۔مصر کے قومی مرکز برائے تحقیقات و تعزیرات نےانسدادجرائم کے موضوع پر قاہرہ میں 2تا5جنوری 1961ءکو ایک سمپوزیم منعقد کروایا جس کا عنوان تھا "انتقام جرائم اور ان کا سد باب "۔۔۔اس سمپوزیم میں یہ کہا گیا کہ شخصی بدلہ سے مراد قتل کے بدلہ انتقام قتل ہے یہ مسئلہ تاریخ کے ان ادوار میں زیادہ ابھرا ہے جب کہ حکومت ضابطہ قصاص کو پورے طور پر نافذ کرنے سے قاصر رہی ۔اس سمپوزیم کی چند سفارشات میں سے ایک اہم سفارش یہ تھی۔
"عدالتی طریق کار قتل کے مقدمات میں جلد فیصلہ کی ضمانت دے اور شخصی بدلہ کی بناپر قتل کی سزا اس قدر عبرت انگیز ہو جس سے ورثاءمقتول کے انتقامی جذبات ٹھنڈے پڑجائیں تاکہ وہ خود قصاص لینے کی کوشش سے باز رہیں اور رائے عامہ بھی مطمئن ہوجائے"(قصاص فی الفقہ الاسلامی صفحہ 28)
مصری سیمینار کی اس سفارش کی روشنی میں جناب اللہ بخش رانجھا کے فیصلہ پر غور کیجئے؟کیا یہ اس سفارش پر عملدار آمد کی صورت نہیں ہے؟کیا سو بچوں کے مظلوم والدین کے کلیجے اس فیصلے سے ٹھنڈے نہیں ہوئے؟ کیا رائے عامہ اس سے مطمئن نہیں ہے؟ یقیناً ہے تو پھر یہ فیصلہ قابل قبول کیوں نہیں ہے؟حکومت اس کے خلاف اپیل میں کیوں جانا چاہتی ہے؟
یہاں ہم مسٹر کلا ئیو سے گفتگوکے دوران ہونے والی ایک بات کو بھی ریکارڈ پر لانا چاہتے ہیں ۔ایک سوال کے جواب میں مسٹر کلا ئیو نے بتایا کہ برطانیہ میں جب جاوید مغل کو دی جانے والی سزا کی خبراخبارات میں شائع ہوئی تو رائے عامہ کے ایک طبقہ نے کہا:
It is a good idea, We should treat peodophiles like this.
یعنی! یہ بڑا اچھا خیال ہے ہمیں بھی بچوں کے قاتلوں کو ایسی ہی سزا دینی چاہیے "
جب برطانیہ کے عوام کا ایک طبقہ اس سزا کو اچھا خیال کرتا ہے تو ہمارے ہاں انسانی حقوق کے ڈھنڈورچی اس کی مخالفت نہ جانے کیوں کرتے ہیں ؟پاکستان کے انسانی حقوق کے علمبردارتو جاوید مغل کو برسرعام پھانسی کو انسانی حقوق کے منافی اور وحشیانہ طریقہ کہہ رہے ہیں ۔ مگر جاوید مغل نے خود اپنی پھانسی کی سزا کو ٹیلی ویژن پر دکھانے کی خواہش کا اظہار کیا ہے (روزنامہ پاکستان یکم اکتوبر 2000ء)
مختصر جاوید مغل کو دی جانے والی سزا قصاص کے اسلامی قانون سے مطابقت رکھتی ہے مالکیہ اور شافعیہ نے کھل کر قصاص کی حمایت کی ہے البتہ حنفیہ نے جن دلائل کی بنیاد پر "تلوارہی میں قصاص ہے" جیسا موقف اپنایا ہے ان کے دلائل تعمیم کے درجہ میں ہیں ۔ان کا اطلاق جاوید مغل جیسے ننگ انسانیت وحشی قاتلوں پر ہر گز نہیں ہو گا ہمیں امید ہے کہ جاوید مغل کودی جانے والی سزا پاکستان میں قصاص کے نفاذ کے اسلامی طریقہ کار فروغ دینے کے لیے سنگ میل ثابت ہوگی۔(محمد عطاء اللہ صدیقی )