کتاب: محدث شمارہ 242 - صفحہ 15
ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مثلہ(ہیت بگاڑنے) سے منع فرمایا۔لیکن شریعت کو سمجھنے کا طریقہ علماء کے ہاں یہ رہاہے کہ وہ ایک موضوع پر تمام آیات واحادیث کو پیش نظر رکھ کر شرعی مسئلہ کی وضاحت کرتے ہیں ۔چنانچہ قرآنی آیت جس میں الٹی طرف سے ہاتھ پاؤن کاٹنے،مجرم کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے ،صحیح بخاری کی قبیلہ عرینہ کے بارے میں بیان کردہ حدیث اورصحیح مسلم میں یہودی کا سرکچلنے والی جیسی صریح احادیث وآیات کی موجودگی میں ضرورت اس بات کی ہے کہ ان سب کو سامنے رکھ شریعت کامنشا طے کیاجائے۔جس کی صورت یہی ہے کہ عمومی حالات میں شریعت مطہرہ نے مثلہ کرنے یا مقتول کو اذیت دینے سے منع کیا ہے۔لیکن جوابی سزا کے طور پر،جرم کے استیفاء کی غرض سے اور جرائم کو جڑسے اکھاڑنے کے لیے مخصوص حالات میں ان کی اجازت بھی دی ہے اور انہی میں سے ایک سنگین ترین صورت حال جاوید مغل جیسے وحشی قاتل کی بھی ہے۔جس کی وحشت وبربریت کی مثال معلوم تاریخ میں آج تک دستیاب نہیں ہوسکی۔ چنانچہ سورۃ المائدہ کی آیت ،قبیلہ عرینہ کے متعلق بخاری ومسلم کی صحیح احادیث اور یہودی قاتل کا پتھروں سے سر کچلنے والی حدیث سے مثلہ والی حدیث کاتطابق ضروری ہے نجانے احناف کے بعض فقہاء اس تطبیق کی ضرورت کیوں نہیں محسوس کرتے۔محض اپنے موقف کی صداقت وقوت کو ثابت کرنے کے شدید داعیہ کےزیر اثر وہ ایک صحیح حدیث کو دوسری کے لیے ناسخ قرار دے کر آگے بڑھ جاتے ہیں ۔جبکہ ننسخ کے ثبوت کے لیے علماء کے ہاں باقاعدہ اصول وقوانین ہیں ،جن کے ذریعے نسخ کا پتہ چلایاجاتاہے۔شریعت کا معاملہ کوئی ایسا کھیل تو نہیں کہ جس چیز کو چاہیں منسوخ قرار دے دیا جائے۔مفتی محمد یوسف لدھیانوی لکھتے ہیں : "اول یہ کہ کسی حکم شرعی کے بارے میں جو آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہو،نسخ کادعویٰ کرنابہت ہی سنگین بات ہے۔اور اسکے لیے نقل صحیح کی ضرورت ہے،محض قیاس وگمان سے نسخ کادعویٰ کرناجائز نہیں ۔۔۔۔" حافظ سیوطی الاتقان(24:2) میں لکھتے ہیں : "ابن حصار کہتے ہیں کہ نسخ کے باب میں صرف نقل صریح کی طرف رجوع کیا جا تا ہے جو انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یاکسی صحابی سے منقول ہو کہ فلاں آیت نے فلاں حکم منسوخ کردیا ،اور نسخ کا حکم اس وقت بھی کیا جا سکتا ہے جب کہ دونصوں میں قطعی تعارض ہو(جس میں مطابقت دینا ممکن نہ ہو) اور ساتھ ہی تاریخ سے بھی متقدم اور متاخرکو معلوم کیا جا سکے۔۔۔کیونکہ نسخ کا مطلب ایک ایسے حکم کو اٹھانا ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں ثابت تھا اور اس کی جگہ پر دوسرے حکم رکھنا ہے اس بارے میں لائق اعتماد نقل صریح یا قطعی تاریخ ہی ہو سکتی ہے نہ کہ محض رائے اور اجتہاد (ماہنامہ بینات کراچی : شمارہ جون و جولائی 1981ء) سورۃمائدہ کی آیت نمبر33 میں فسادیوں کے لیے ایک سزا سولی پر چڑھانا ہے اس کے متعلق ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں "پھر بزرگوں نے اس میں بھی اختلاف کیا ہے کہ آیا سولی پر لٹکا کر یونہی چھوڑ دیا جا ئے کہ بھوکا پیاسا مر جائے؟یانیز ےوغیرہ سے قتل کر دیا جائے؟یا پہلے قتل کر دیا جائے پھر سولی پر لٹکایا جائے تاکہ اور لوگوں کو عبرت حاصل ہو؟اور کیا تین دن تک سولی پر رہنے دےکر پھر اتار لیا جائے یا یونہی چھوڑ دیا جا ئے۔" ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ کے ان جملوں سے ایک بات مترشح ہوتی ہے کہ بزرگ فقہا کا ایک گروہ فسادی قاتلوں کو قتل کرنے کے بعد سولی پر لٹکائے جانے کو جائز سمجھتا ہے تاکہ اور لوگوں کو عبرت حاصل ہواور ایک گروہ یہ بھی رائے رکھتا ہے کہ سولی پر لٹکا کر یونہی چھوڑ دیا جا ئے یعنی لاش گل سڑ کرخود ہی گرے۔اگر فقہا کا ایک گروہ فسادیوں کو