کتاب: محدث شمارہ 242 - صفحہ 14
نَفْسَهُ﴾ طلاق کے معاملات کے متعلق ہے یہاں عدت کے دوران عورتوں کے ساتھ زیادتی نہ کرنے کی ہدایت ہے مگر فقہاء کرام نے اپنی بات کا وزن بڑھانے کے جوش میں طلاق کے مضمون کی آیت کو قصاص کے مضمون پر منطبق کردیا۔ان کی جانب سے پیش کردہ سورہ بقرہ کی آیت 178: ﴿ فَمَنِ اعْتَدَىٰ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَلَهُ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴾ یقیناً آیت قصاص کا آخری جزو ہے۔لیکن اس کے سیاق وسباق پر غور کیاجائے تو اس کامفہوم وہ نہیں نکلتا جو یہ عظیم فقہاء پیش فرماتے ہیں ۔ یہاں تفصیلات کی گنجائش نہیں ہے،اس کا حقیقی مفہوم تفاسیر اور کتب فقہ میں دیکھا جاسکتا ہے۔مولاناابواعلیٰ مودودی رحمۃ اللہ علیہ نے اس زیادتی کی وضاحت یوں کی ہے: "مثلا یہ کہ مقتول کا وارث خون بہا وصول کرلینے کے بعد پھر انتقام لینے کی کوشش کرے۔یا قاتل خون بہا ادا کرنے میں ٹال مٹول کرے اور مقتول کے وارث نے جو احسان اس کے ساتھ کیا ہے،اس کابدلہ احسان فراموشی سے دے"(تفہیم القرآن ،جلد اول،صفحہ 139) حافظا ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ اس کی وضاحت یوں فرماتے ہیں : "پھر فرمایا:جوشخص دیت یعنی جرمانہ لینے کے بعد یادیت قبول کرلینے کے بعد بھی زیادتی پر تل جائے،اس کےلیے دردناک عذاب ہے" سورہ بقرہ کی آیت نمبر 194 میں جس برابری کاذکر کیا گیا ہے وہ حرمت والے مہینوں میں کفارہ کی طرف سے زیادتی کے ردعمل کے طور پر ہے جیسا کہ مولانا ابوالاعلیٰ مودودی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : "آیت کامنشا یہ ہے کہ ماہ حرام کی حرمت کالحاظ کفار کریں تو مسلمان بھی کریں ۔اور اگر وہ اس حرمت کو نظرانداز کرکے کسی حرام مہینے میں مسلمانوں پر دست درازی کر گزریں تو پھر مسلمان بھی ماہ حرام میں بدلہ لینے کے مجاز ہیں "(تفہیم القرآن :جلد اول،صفحہ 152) سورہ بقرہ کی آیت نمبر 194 کامکمل ترجمہ یہ ہے: "ماہ حرام کابدلہ ماہ حرام ہی ہے اور تمام حرمتوں کا لحاظ برابری کے ساتھ ہوگا۔ لہذا جوتم پر دست درازی کرے ،تم بھی اسی طرح اس پردست درازی کرو" کوئی صاحب انصاف اگر ٹھنڈے دل سے آیت کے پس منظر پر غور فرمائے تو اس آیت کی بنیاد پر قصاص کے مجرم کے بارے میں اس نتیجہ پر پہنچنے میں اسے مشکل ضرور پیش آئے گی کہ"ان آیات سے یہ ثابت ہوتاہے کہ کہ مجرم کے ساتھ صرف اتنا ہی فعل کیا جانا چاہیے جتنا اس نے کیا ہے،نہ کہ اس سے زیادہ۔"جہاں تک سورۃ النحل کی آیت نمبر 126﴿ وَإِنْ عَاقَبْتُمْ.....الخ﴾ کا تعلق ہے۔اس کو شافعیہ اور حنفیہ نے اپنی اپنی دلیل کے طور پر استعمال کیا ہے۔شافعیہ اس سے قصاص پرعملدرآمد پر زور دیتے ہیں جبکہ احناف کے بعض فقہاء اس کی بنیاد پر اپنے زیادتی والے خدشات کو مزیدتقویت دیتے ہیں ۔اس آیت کی روشنی میں ان کا یہ استنباط تو درست ہے کہ یہاں اس امر کی ممانعت فرمائی ہے کہ مجرم نے جتنا زخم لگایا اسے اس سے زیادہ زخم نہ لگایاجائے"مگر جاویدمغل کے معاملے میں اس آیت کو آڑ بنا کر بھی قصاص سے گریز کی صورت پیدا نہیں کی جاسکتی کیونکہ جاویدمغل کا جرم اتناسنگین ہے کہ اس پر قصاص کی سزا نافذ کرتے ہوئے کسی قسم کی زیادتی کا امکان ہی نہیں ہے ۔بلکہ اسے برابر کی سزا دینابھی اس دنیا میں ممکن نہیں ہے۔اسے اتنی سزا دی ہی نہیں جاسکتی جتنی اس نے سو بچوں کو تکلیف پہنچائی۔ 4۔جاوید مغل کو دی جانے والی سزا کو غیر شرعی قرار دینے والوں کے نزدیک غالباً سب سے بڑی دلیل یہ