کتاب: محدث شمارہ 242 - صفحہ 13
تو مجھے سخت ندامت ہوئی کہ میں نے اس سے یہ حدیث کیوں بیان کی" غور طلب امر یہ ہے کہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ندامت اس بات پر ہوئی کہ حجاج بن یوسف نے اس واقعہ کو ا پنے مظالم کی دلیل بنالیا۔اگر آج بھی حکمران بے گناہ رعایا پر ظلم ڈھانے کے لیے اس واقعہ کا سہارا لے گا تو اس کی مذمت اہل علم پر فرض ہے مگر فساد برپا کرنے والے اور سو بچوں کے قتل کے مرتکب ایک شقی القلب انسان کو اگر کوئی حکمران قبیلہ عرینہ کے افراد کی طرح سزا دے،تو کوئی بھی صاحب علم اس پا تاسف کااظہار نہیں کرے گا۔ بعض افراد کی طرف سے پیش کردہ یہ تاویل بھی کمزور ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے چونکہ قبیلہ عرینہ کے ڈاکوؤں کو مذکورہ سزا دینے کے بعد دوبارہ کسی کو ویسی سزا نہیں دی جس سے یہ ثابت ہوا کہ انہوں نے اس سے منع فرمادیا۔یہ محض ان کی پیش یاافتادہ دلیل ہے حقیقت یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں اس طرح کاواقعہ کبھی دوبارہ پیش نہ آیا،تو ایسی سزا دوبارہ دینے کی ضرورت کیسے پیش آئی؟ 2۔جہاں تک سزائے قتل کے نفاذ میں سلیقہ سے قتل کرنے کی ہدایت ہے ،اس کااطلاق بھی عمومی صورتوں میں ہوتا ہے۔بعض بےحد استثنائی اور قتل عمد کی انتہائی سنگین و ارداتوں میں جہاں قاتل کو سزادینے کے ساتھ ساتھ اسے نمونہ عبرت بھی بنانا مقصود ہو،وہاں اس کے برعکس عمل بھی قرآن وسنت کی رو سے متصادم نہیں ہے۔رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاء راشدین سے مروی مذکورہ واقعات میں اس عمومی پالیسی کا لحاظ نہ رکھنا بھی ثابت وظاہر ہے۔صحیح مسلم اور نسائی کی یہ حدیث حلال جانوروں کو ذبح کرنے کے سیاق میں آئی ہے۔جہاں تک جانوروں کو سلیقہ سے ذبح کرنے کاتعلق ہے۔وہاں کوئی استثنائی صورت پیدا نہیں کی جاسکتی کیونکہ جانوروں نے کسی جرم کاارتکاب نہیں کیا ہوتا اور نہ ہی ان کے ذبیحہ سے کسی درس عبرت کی صورت نکالی جاسکتی ہے۔جیسا کہ صفحہ 8 پر حاشیہ میں وضاحت کی گئی ہے،اسلام شرف انسانیت اور تکریم آدم کاعلمبردار ہے۔مگر ایسے انسانوں کا کیا کیجئے جو شعور کے حامل ہونے کے باوجود بھی بہائم اور حیوانات سے بھی اپنے آپ کو گرادیتے ہیں ۔ 3۔قصاص کے بارے میں فقہائے احناف نے لفظ اعتداء اور مماثلت کے متعلق جو نکتہ آفر ینیاں فرمائی ہیں وہ بال کی کھال اُتارنے کے زمرے میں آتی ہیں ۔قصاص میں وہ تلوار کے علاوہ کسی اور چیز سے قتل کرنے کی محض اس وجہ سے قائل نہیں ہیں کہ کہیں وہی عمل دہرانے سے زیادتی نہ ہوجائے۔ان کے خیال میں زیادتی حد قصاص سے تجاوز کرنے کا نام ہے۔وہ قصاص کے نفاذ میں ،کیفیت،اور کمیت،کی غیر ضروری بحثوں میں اُلجھ کرخوامخواہ الجھاؤ پیدا کرتے ہیں ۔برابر کا بدلہ کی جو تعبیر انہوں نے کی ہے اگر اس پر حرف بہ حرف عمل کیا جائے تو برابر کابدلہ لیا جانا امرمحال بلکہ ناممکن ہوجائے گا۔ان کے ارشادات کی نفاستوں کو ہی پیش نظر رکھا جائے تو قتل عمد میں قصاص تو ایک طرف﴿ وَالْجُرُوحَ قِصَاصٌ﴾ (زخموں میں قصاص) پرعملدرآمد بھی ممکن نہیں رہے گا۔کیونکہ اشتعال یا کسی فوری جذبے کے زیراثر کئے جانے والے اقدام سے وہ اقدام بہت اعتبارات سے مختلف ہوتا ہے۔جو باقاعدہ سوچ سمجھ کرمخصوص مقاصد کے پیش نظر روبہ عمل لایاجائے۔ زیادتی والی دلیل کی حمایت میں احناف کی طرف سے جن آیات کا حوالہ مندرجہ بالا سطور میں دیا گیا ہے ،وہ سیاق وسباق سے ہٹی ہوئی ہیں ۔سورۃ الاطلاق کی آیت نمبر 1 کاجڑ: ﴿ وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَقَدْ ظَلَمَ