کتاب: محدث شمارہ 242 - صفحہ 12
یہاں اس امر کی ممانعت فرمائی ہے۔ کہ مجرم نے جتنا زخم لگایا اسے اس زیادہ زخم لگایا جائے یا جتنا فعل(جرم) اس نے کیا ہے،اس کےساتھ ا س سے زیادہ کیا جائے۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مجرم کےساتھ صرف اتنا ہی فعل کیا جانا چاہیے جتنا اس نے کیا ہے نہ کہ ا سے زیادہ۔ 4۔قصاص عبارت ہے برابر کے بدلے سےاور پتھر مارکرہلاک کرنے کی کوئی مقدار متعین نہیں جس کی رو سے یہ قرار دیاجاسکے کہ مجرم کو پتھر مار کر ہلاک کرنے میں اس کے جرم کی مقدار سے تجاوز نہیں کیاگیا۔یہی حال تیریا نیزہ پھینک کر اور آگ میں جلا کر ہلاک کرنے کا ہے۔اس لیے یہ جائز نہیں کہ قصاص سےمراد ایسی مماثلت ہو بلکہ اس سے مراد لازماً یہ ہے کہ مجرم کی جان کا بسرعت ممکنہ خاتمہ کردیاجائے۔ 5۔حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ن مثلہ(ہیت بگاڑنے) سے منع فرمایا ہے۔کیونکہ ایسا کرنا معصیت ہے اور قصاص سے مراد ہرممکن آسان طریقہ سے مجرم کی جان کا اتلاف ہے جو کہ تلوار ہی سے ممکن ہے۔ احناف کے موقف کا تجزیہ: کسی بھی علمی بدیانتی کےالزام سے بچنے کے لیے احناف کے موقف کوتفصیل سے درج کردیا گیا ہے جن دلائل کی بنیاد پر احناف نے مسئلہ مذکور کے ضمن میں نتیجہ اخذ کیا ہے،ان سے کامل اتفاق نہیں کیا جاسکتا،بلکہ ان کی طرف سے جن بعض نکات کو عقلی دلائل کے طور پر آگے بڑھایا گیا ہے،اگرآج ان کاتجربہ کیاجائے تو کسی حد تک وہ غیر عقلی بلکہ مضحکہ خیز بھی ہیں ۔ ممکن ہے جس وقت اور جن واقعات کی روشنی میں یہ دلائل پیش کئے گئے ہوں گے،اس وقت ان کی قدروقیمت مخصوص سیاق وسباق کے اعتبار سے مختلف ہو لیکن جاوید مغل کیس کے تناظر میں اگر کوئی شخص ان دلائل ونتائج کو بنیاد بنا کراس رائے کا اظہار کرے کہ سو بچوں کے قاتل کو دی جانے والی سزا غیر شرعی ہے تو یقیناً کہا جانا چاہیے کہ صاحب الرائے نے حالات کی رعایت کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا۔احناف کے مندرجہ بالاموقف کے متعلق راقم الحروف کی معروضات حسب ذیل ہیں : (1) جہاں تک اس حدیث کاتعلق ہے کہ قصاص صرف تلوار ہی سے ہے اس حدیث کے راوی حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں اور اسے سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ نے روایت کیا ہے فن حدیث کے عظیم ماہر علامہ البانی نے اس حدیث کوضعیف قرار دیا ہے اور اپنی کتاب ارواءالغلیل :ج2 ص 285 میں بڑی تفصیل سے اس کے ضعف سند پر بحث کی ہے۔ علاوہ ازیں یہ حدیث بخاری ومسلم کی اس حدیث سے متعارض ومتصادم ہے۔جس میں واضح طور پر موجود ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ عرینہ کے افراد کے ہاتھ پاؤں کاٹ دینے کا حکم دیا اور ان کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھیری گئیں ۔اور ایک بچی کے قتل کی سزا کے طور پر یہودی کاسر پتھر سے کچلنے والی حدیث بھی ظاہر کرتی ہے کہ قصاص پر تلوار کے علاوہ بھی عملدرآمد کی صورت ہوسکتی ہے۔صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین ،خلفائے راشدین رضوان اللہ عنہم اجمعین اور بعد کے ادوار سے بھی متعدد مثالیں دی جاسکتی ہیں جن میں قصاص کی سزا تلوار کے علاوہ بھی دی گئی۔ مفسر حافظ ابن کثیر نے سورہ مائدہ کی آیت 33 کی تفسیر بیان کرتے ہوئے یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ: "ایک مرتبہ حجاج بن یوسف نے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سوال کیا کہ سب سے بڑی اور سب سے سخت سزا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو دی ہو،تو حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قبیلہ عرینہ کے لوگوں کو دی جانے والی سزا کا واقعہ بیان کیا۔حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں پھر میں نے دیکھا کہ حجاج نے تو اس روایت کواپنے مظالم کی دلیل بنالیا تب