کتاب: محدث شمارہ 242 - صفحہ 11
نے اسے گرفتار کرکے پیش کرنے کاحکم دیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قصاص میں مماثلت کااعتبار کرتے ہوئے دو پتھروں کے درمیان سے اس کاسر کچلنے کا حکم دیا۔(احکام القرآن از ابن العربی رحمۃ اللہ علیہ :جلد اول،صفحہ114)
2۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ وَإِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوا بِمِثْلِ مَا عُوقِبْتُم بِهِ﴾(النحل:146)
"اگر تم سزا دینا چاہوتو ایسی ہی سزا دو جیسی تمہیں دی گئی"
3۔جس طرح قاتل نے ارتکاب جرم کیا،اسی طرح بدلنے اس طرح بدلہ لینے سے ہی قصاص کی مراد صادق ہوتی ہے جو کہ مماثلت سے عبارت ہے ۔لہذا فعل اور کیفیت عمل دونوں کی یکسانیت کا اعتبار کرتے ہوئے اسی طرح قصاص لینا ضروری ہے جس طرح مجرم نے مقتول کو قتل کیا۔
حنفیہ کا موقف:القصاص فی الفقہ الاسلامی کے مولف کے مطابق احناف کا موقف یہ ہے کہ مجرم نے مقتول کو خواہ کسی بھی طرح ہلا ک کیا ہو،اسے قصاص میں صرف تلوار سے قتل کیا جائے گا(صفحہ:308) فاضل مولف کی طرف سے درج کردہ احناف کے دلائل کے اہم نکات حسب ذیل ہیں :
1۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:لاقود الا بالسيف یعنی"قصاص صرف تلوار سے ہے" اس سے مرادیہ ہے کہ قصاص تلوار سے نافذ کیاجائے، نہ یہ کہ تلوار سے ارتکاب قتل کی صورت میں قصاص واجب ہے۔پس یہ حدیث دواُمور پر دلالت کرتی ہے:
1۔وجوب قصاص سے متعلق آیات قرآنیہ کی مراد کا تعین
2۔حدیث کی ابتدا عموم سے ہورہی ہے جس سے تلوار کے علاوہ اور کسی چیز سے استیفاء قصاص کی نفی ہوتی ہے ۔
2۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"اللہ تعالیٰ نےہر چیز سے احسان کرنافرض ٹھہرایاہے۔ پس جب تم کسی کو سزائے قتل دو تو اسے سلیقہ سے قتل کرو اور جب کوئی جانور ذبح کرو تو سلیقہ سے ذبح کرو اور چاہیے کہ ہر ذبح کرنے والا شخص اپنے خنجر کو تیز کرے اور اپنے ذبیحہ کوراحت پہنچائے"پس جبکہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سلیقہ کے ساتھ قتل کرنے اور اللہ تعالیٰ کے حلال کردہ جانوروں کو ذبح کرتے وقت راحت پہنچانے کاحکم دیاہے تو انسان جو کہ نہایت شرف واحترام رکھتاہے ۔اس کے بارے میں تمارا کیاخیال ہے۔(حوالہ ،ایضا)
3۔ ضروری ہے کہ قصاص بغیر کسی زیادتی کے لیاجائے اور تلوار کے بغیر دیگر طریقوں مثلاً آگ میں جلانے،غرق کرنے یا پتھر مار کر ہلاک کرنے یاقید رکھنے وغیرہ سے قصاص لیا جائے تو ان صورتوں میں مجرموں کے ساتھ اس کے فعل جرم سے زیادہ فعل کرنا پڑے گا کیونکہ اگر وہ ایسی سزائے مثلی سے نہ مرسکا تو پھر اسے تلوار سے ہلاک کیاجائے گا یا وہی عمل دہرایا جائے گا تاآنکہ وہ مرجائے اور یہ بھی اس زیادتی(اعتداء) میں داخل ہے جس کا حکم آیت کے منافی ہے۔کیونکہ اگر قصاص ا س سے عبارت ہے کہ مجرم کے ساتھ اس جیسا فعل کیا جائے تو وہ ہوچکا۔اب اس کے بعد اسے قتل کرنا حد قصاص سے تجاوز کرے گا اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:﴿ وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ﴾
"یعنی جو شخص حدوداللہ سے تجاوز کرے وہ ا پنے آپ پر ظلم کرتاہے۔"(الطلاق) ا رشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ فَمَنِ اعْتَدَى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدَى عَلَيْكُمْ﴾(البقرہ:194)
"یعنی جو کوئی تم پر زیادتی کرے تو جس طرح کامعاملہ اس نے تمہاے ساتھ کیا ہے ویسا ہی سلوک تم بھی اس کے ساتھ کرو۔
نیز فرمایا:﴿ وَإِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوا بِمِثْلِ مَا عُوقِبْتُم بِهِ ﴾
یعنی"اگر تم سزا دیناچاہوتو اسی قدر سزا دو جتنی تمہیں تکلیف پہنچائی گئی ہے۔"