کتاب: محدث شمارہ 242 - صفحہ 10
(آگ میں جلانا)عذاب الٰہی کی صورت ہے،اس لیے ممنوع ہے۔چنانچہ جب حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو معلوم ہوا کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بعض مرتدین کو آگ میں جلانے کا فیصلہ کیا ہے توانہوں نے کہا:
"میں تو اسے درست نہیں سمجھتا کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:"لا تُعَذّبُوا بِعَذَابِ اللّٰه"
یعنی تم اس طرح کسی کو عذاب نہ دو جس طرح اللہ تعالیٰ نافرمانوں کو سزادیں گے"البتہ انہیں قتل کیا جاسکتاہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جو شخص ا پنا دین چھوڑ کر دوسرا دین اختیار کرلے،اسے قتل کردو"
٭ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ قصاص کاطریقہ طے کرنا ولی مقتول کا حق ہے۔مالکی رحمۃ اللہ علیہ علماء اس امر پر متفق ہیں کہ اگر ایک شخص نے کسی کاہاتھ اور پیر کاٹ دیا اور آنکھ نکال دی اور ایسا اسے تکلیف دینے کی غرض سے کیاتو قصاص میں اس کے ساتھ بھی یہی سلوک کیاجائے گا جیسا کہ صحیح بخاری ومسلم میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کاچرواہوں (اہل عرینہ) سے قصاص میں ان کے جرم جیسا سلوک کرنے کا حکم دینا ضروری ہے۔ لیکن اگر اس شخص نے باہمی لڑائی اور مدافعت میں ایسا کیا تو پھر تلوار سے قصاص لیا جائے گا۔مالکی علماء کے اقوال میں سے صحیح یہ ہے کہ مجرم کے فعل اور اس کی سزا میں مماثلت ویکسانیت ضروری ہے۔الا یہ کہ حد تعزیب میں داخل ہوجائے تو پھر تلوار کے ذریعے قصاص لیا جائےگا۔ان کے تمام اقوال اسی اصول پر مبنی ہیں ۔(ایضاً،صفحہ 313،تا315)
شافعیہ کا موقف:یہ ہے کہ قاتل سے اس طرح قصاص لیا جائے جس طرح اس نے دو سرے کوقتل کیا ہے بشرط یہ کہ وہ (انتقامی) عمل شریعت کے مطابق ہو۔اگر ا س عمل سے مجرم مرجائے تو فبہا،ورنہ تلوار سے اس کی گردن کاٹ دیجائے گی۔کیونکہ بدلہ کی بنیاد مماثلت ومساوات پر ہے اور اسی لیے اس کا نام قصاص میں رکھاگیا ہے۔چنانچہ اگرایک شخص نے کسی کو پتھر مارا اور وہ سنبھل نہ سکا حتیٰ کہ مر گیا تو قاتل کے ساتھ ایسا یکبار کیاجائے گا اور اگر قید میں رکھ کر کھانا پینا بند کرکے ماردیا تو مجرم کو بھی اتنے عرصہ تک قید میں بھوکاپیاسا رکھا جائے گا لیکن اگر اسی عرصے میں اسے موت نہ آئی تو تلوار سے ہلاک کردیا جائے گا۔(ایضاً :ص 319،320)
اگر مجرم نے کسی فعل غیر مشروع(ناجائز) کے ذریعہ قتل کاارتکاب کیا مثلا لواطت کی یاشراب پلا کر مارا تو اس معاملہ میں مشائخ شافعیہ کا اختلاف ہے:
1۔بعض کہتے ہیں کہ لواطت کے ذریعہ قتل کرنے والے مجرم کی مقعد میں ایک لکڑی ڈال کر اس طرح کیا جس طرح اس نے فعل شنیعہ کا ارتکاب کیا تھا اور شراب پلا کر مارنے والے کو زیادہ مقدار میں پانی پلاکر اتنی مدت تک انتظا ر کیاجائے(جتنی مدت میں مقتول ہلاک ہواتھا) اگر اس دوران دشمن مرجائے تو ٹھیک ورنہ اس کی گردن کاٹ دی جائےکیونہ صورت مذکورہ میں اسی طرح جر م وسزا کے مابین مماثلت کاتحقق ممکن ہے۔
2۔لیکن شافعیہ کا ایک گروہ یہ رائے رکھتا ہے کہ مجرم کو تلوار سے قتل کیا جائے اور جیسا فعل اس نے مقتول کے ساتھ کیا تھا،ویسا ہی اس کے ساتھ نہیں کیاجائے گا کیونکہ وہ فعل شرعاً ممنوع ہے،برعکس اس کے پتھر سے اور تلوار سے قتل کرنا شرعاً جائز ہے۔جیسا کہ حد رجم میں پتھروں سے سنگسار کیا جاتا ہے۔
شافعیہ نے اپنے موقف کی بنیاد حسب ذیل دلائل پر رکھی ہے:
1۔صحیح مسلم وبخاری میں یہ حدیث موجود ہے کہ ایک یہودی نے ایک لڑکی کوزیور چھیننے کی خاطر پتھروں سے سر کچل کر ہلاک کردیا۔لڑکی نے اپنے آخری وقت میں اس قاتل یہودی کی نشاندہی کردی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم