کتاب: محدث شمارہ 241 - صفحہ 9
مشکوۃ باب الامر بالمعروف میں حدیث ہے کہ"اگر کسی قوم میں کوئی گناہ ہوتا ہو اوروہ قوم ظالم کاہاتھ پکڑنے پر قادر نہ ہو پھر بھی نہ پکڑے"تو اللہ کی طرف سے سب پر عذاب آئے گا۔(ابوداود،ابن ماجہ)
سوال۔ایک مولوی صاحب نے تقریر میں کہا کہ قرآن مجید کلام الٰہی نہیں بلکہ مخلوق ہے کیونکہ قرآن صفت ہے اور صفت پیدا ہوتی ہے،اس لیے قرآن مخلوق ٹھہرا۔اس مسئلہ کی وضاحت فرمادیجئے۔
جواب:قرآن کے مخلوق ہونے کا عقیدہ رکھناکفر ہے۔کیونکہ قرآن مجید کلام اللہ ہے،غیر مخلوق ہے۔سورہ توبہ میں ہے:
﴿حَتّىٰ يَسمَعَ كَلٰمَ اللَّهِ ...6﴾...التوبة
"یہاں تک کہ وہ کلام الٰہی سننے لگے"
جس طرح اللہ تعالیٰ اپنی ذات کے اعتبار سے بے مثال اور بے نظیر ہے،اس طرح اس کی صفات بھی بے مثال اور بے نظیر ہیں ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ ۖ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ ﴿11﴾...الشورىٰ
"اس جیسی کوئی چیز نہیں اور وہ دیکھتا سنتا ہے"
اس آیت کریمہ میں جہاں باری تعالیٰ کابے مثال ہونا ذکر ہوا ہے،وہاں اس کا دیکھنا اورسننا بھی صفات الٰہی کا اثبات ہے۔اس طرح سارا قرآن کریم صفت الٰہی ،غیر مخلوق اور معجزہ ہے۔امام طحاوی حنفی عقیدہ طحاویہ میں فرماتے ہیں :
" وإِنَّ القرآنَ كَلامُ اللّٰه، منْهُ بَدَا بلاَ كَيْفِيَّة قَوْلاً، وأنْزلَه على رَسُولِهِ وَحْياً، وَصَدَّقهُ المؤمنون على ذلك حَقًّا، وأَيْقَنُوا أنَّه كلامُ اللّٰه تعالى بالحقيقة، ليس بمخلوقٍ ككلام البَرِيَّةِ، فمن سمِعَهُ فَزَعَمَ أَنَّهُ كلامُ البشرِ، فَقَدْ كَفَرَ، وقد ذمَّهُ اللّٰه وعابَهُ وأوعَدهُ بسَقَر، حيث قال تعالى ﴿سَأُصْلِيهِ سَقَرَ﴾[المدثر:26]، فَلَمَّا أَوْعَدَ اللّٰهُ بِسَقَرٍ لمنْ قال ﴿إِنْ هَذَا إِلَّا قَوْلُ الْبَشَرِ﴾[المدثر:25]، عَلِمْنَا وأَيْقَنَّا أنه قولُ خالقِ البَشرِ، ولا يُشْبِهُ قولَ البشر"
"قرآن اللہ کی کلام ہے ،اس سے ظاہر ہوا،ہمیں اس کے تکلم کی کیفیت معلوم نہیں ۔وحی کی صورت میں اس کو اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمایا اور مومنوں نے اس کے برحق ہونے کی تصدیق کی اور انہیں یقین ہوا کہ یہ حقیقتاً اللہ کا کلام ہے۔غیر مخلوق ہے۔لوگوں کی کلام کی طرح مخلوق نہیں ہے۔جو اسے سن کر خیال کرے کہ یہ بشر کی کلام ہے تو وہ کافر ہے۔ایسے شخص کی اللہ نے مذمت کی اور اس پر عیب لگایا اور اس کی دوزخ کے طبقہ سقر میں داخل کرنے کی دھمکی دی۔جس آدمی نے یہ کہا تھا کہ قرآن انسانی کلام ہے۔اللہ نے ا س کو دوزخ کی دھمکی دی تو ہمیں علم اور یقین ہوگیا یہ خالق بشر کی کلام ہے جو بشر کی کلام کے مشابہ نہیں ۔"(متن شرح عقیدہ طحاویہ :ص 127،128)
کتب توحید میں امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا قول معروف ہے کہ:
"اللہ جانتا ہے لیکن اس کا جاننا ہمارے جاننے کی طرح نہیں ۔اللہ قادر ہے لیکن اس کی قدرت ہماری قدرت کی طرح نہیں ۔اللہ متکلم ہے لیکن اس کی کلام مخلوق کی کلام کی طرح نہیں ۔اللہ سمیع ہے اس کا سننا ہمارے سننے کی طرح نہیں ۔وہ دیکھتا ہے اس کا د یکھنا ہمارے دیکھنے کی طرح نہیں ،اسی بناء پر ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ﴾(مریم:65)
"بھلا تم کوئی اس کا ہم نام جانتے ہو"