کتاب: محدث شمارہ 241 - صفحہ 43
گزارہ چلا لیتے ہیں ۔ایسے موقعوں پر بے جا اجتہاد سے بھی نہیں گھبراتے۔چنانچہ داڑھی کے مسئلہ کے متعلق تو قارئین کرام ان کی رائے معلوم کرچکے ہیں کہ ذرا سانشان کافی ہے جس پر رکھنے کا لفظ بولا جاسکے۔حالانکہ یہ تشریح نہ کسی محدث ،نہ کسی فقیہ نے کی بلکہ مذکورہ بالا احادیث کے بھی خلاف ہے اور مذاہب اربعہ اور سلف کے بھی خلاف ہے۔مگر مودودی صاحب نے سب کو نظر انداز کرتے ہوئے داڑھی کو ذرا سا نشان بنادیا۔انا للہ وانا الیہ راجعون۔اب انگریزی قسم کے بالوں کے متعلق ان کافتویٰ سنیے:
فتویٰ مودودی صاحب:
"سر کے بالوں کے متعلق صرف یہ ہدایت ہے کہ کچھ مونڈنا اور کچھ رکھنا ممنوع ہے۔موجودہ زمانے میں جس قسم کے بالوں کو پنجاب میں بودے کہتے ہیں اور جنہیں یو۔پی میں انگریزی بال کہا جاتا ہے۔ان کے ناجائز ہونے کی کوئی دلیل مجھے نہیں ملی۔لیکن اگر غیر مسلم کی ایجاد کردہ وضع کو سرچڑھانے میں کراہت کاپہلو ضرور ہے۔اور اسی لیے میں نے اس وضع کو بدل دیا ہے"(رسائل ومسائل ص181۔ترجمان القرآن۔رمضان شوال 1362ھ ستمبر اکتوبر 1943ء)
اس میں شبہ نہیں کہ کسی قوم کی خصوصی چیز لینے میں کشش ضرور ہوتی ہے۔کیونکہ پہلے انسان اس چیز کو پسند کرتاہے،پھر لیتا ہے اور جب اس قوم کا دین ومذہب الگ ہوتا ہے تو پھر آہستہ آہستہ یہ چیز اس انسان کے دین ومذہب پر بُرا اثر ڈالتی ہے اورخطرہ [1]ہوتاہے۔کہ انہی میں جذب ہوجائے۔یاکم سے کم مداہن اور سست ہوجائے۔اسی بنا ء پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ "
یعنی جوشخص کسی قوم سے مشابہت کرے ،وہ انہی سے ہے"اس کے دو معنےٰ ہیں :ایک یہ اپنے مذہب میں سست ہوتے ہوتے آخر انہی کے مذہب پر خاتمہ ہوجائے گا۔دوسرا یہ کہ قیامت کےدن حشر ان کےساتھ ہوگا۔خواہ آخر کار کسی وقت نجات ہوجائے،بہرصورت کسی قوم سے مشابہت بڑی خطرناک چیزہے۔جس میں سوء خاتمہ کا ڈر ہے یا مجرموں کے ساتھ حشر ہے۔معاذ اللّٰه
مودودی رحمۃ اللہ علیہ صاحب کا یہ کہنا کہ بودوں کے ناجائز ہونے کی مجھے کوئی دلیل نہیں ملی۔یہ دوہری غلطی ہے۔ مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ سے بڑھ کر اور کون سی دلیل ہوگی؟بلکہ اس قسم کی وعید تو سخت ممنوع
[1] ہاں جو چیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہنی ہو جیسے رومی اچکن یا آ پ نے پسند کی ہو جیسے پاجامہ تو اس میں یہ خطرہ نہیں کیونکہ اس کو مسلمان بحیثیت اتباع نبوی اختیار کرے گا جو اُن سے محبت کی علامت ہے جو عین منشا اسلام ہے اور یہ بھی ہوسکتاہے کہ رومی اچکن سارے عرب کا ملکی لباس بن گیا ہو جیسے یمنی حلہ اور اسی بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہنی تو اس صورت میں بھی کوئی خطرہ نہیں ۔اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ رومی اچکن سے مراد اس کے بنانے والاہو یا اسکا کپڑا رومی ہو جیسے حدیث میں آیاہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگوٹھی کا نگینہ حبشی تھا۔بہت سے شارحین نے اس کا معنی یہ کیا ہے کہ اس نگینہ کا پتھر یا اس کے بنانے والا یانقش تیار کرنے والا حبشی تھا۔اس صورت میں بھی رومی کہنے سے کفار کا وہ خصوصی لباس ثابت نہیں ہوتا جس پر مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ کی ذد پڑتی ہو۔(محدث روپڑی رحمۃ اللہ علیہ )